وحی کے لئے آسمان کی طرف دیکھنے کے بجائے خدا کی پیدا کی ہوئی طاقتوں سے فائدہ اٹھانے اور خدا کے نازل کئے ہوئے دین واخلاق کے بنیادی اصولوں پر زندگی کی تنظیم کے لئے زمین کی طرف اور اپنی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت انسان کو پیچھے کی طرف لے جانے کے بجائے آگے کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ انسان کے سامنے اپنی طاقتوں کو صرف کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو اپنی جدوجہد کا حقیقی میدان اور رخ بتاتا ہے۔ اگر ختم نبوت کا عقیدۂ نہ ہو تو انسان ہمیشہ تذبذب وبے اعتمادی کے عالم میں رہے گا۔ وہ ہمیشہ زمین کی طرف دیکھنے کے بجائے آسمان کی طرف دیکھے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے مستقبل کی طرف سے غیرمطمئن اور متشکک رہے گا۔ اس کو ہر مرتبہ ہر نیا شخص یہ بتلائے گا کہ گلشن انسانیت اور روضۂ آدم ابھی تک نامکمل تھا۔ اب وہ برگ وبار سے مکمل ہوا ہے اور وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ جب اس وقت تک نامکمل رہا تو آئندہ کی کیا ضمانت ہے؟ اسی طرح وہ بجائے اس کی آبیاری اور اس کے پھلوں اور پھولوں سے متمتع ہونے کے نئے باغبان کا متنظر رہے گا۔ جو اس کو برگ وبار سے مکمل کرے۔
ملاحظہ ہو مرزاقادیانی کا شعر ؎
روضۂ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک
میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ وبار
(درثمین اردو ص۱۳۵)
علامہ اقبالؒ نے یہ حکیمانہ ومبصرانہ بات کہی ہے کہ: ’’دین وشریعت کی بقاء تو کتاب وسنت سے ہے۔ لیکن امت کی بقاء ختم نبوت کے عقیدہ سے وابستہ ہے اور یہ امت جب ہی تک ایک امت ہے۔ جب تک وہ محمد رسول اﷲﷺ کو خاتم النبیین مانتی ہے اور یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں۔‘‘
(علامہ محمد اقبال کا مقام بجواب مضمون پنڈت جواہر لال نہرو Islam And Ahmadism)
قادیانیت کی جسارت اور جدت
اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً جو تحریکیں اٹھیں۔ ان میں قادیانیت کو خاص امتیاز حاصل