قرار دیا۔ ذرا اس کا بھی ملاحظہ ہو۔ لہٰذا مرزاقادیانی اس کے متعلق یوں گوہر افشانی فرماتے ہیں کہ:
فتویٰ مرزا بحق علماء محمدیہ
۱… ’’مجھ کو بتایا گیا ہے کہ جو مسلمان کو کافر کہتا ہے اور اس کو اہل قبلہ اور کلمہ گو اور عقائد اسلام کا معتقد پاکر پھر بھی کافر کہنے سے باز نہیں آتا۔ وہ خود دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۵۶، خزائن ج۵ ص ایضاً)
شوخ… چنانچہ اس پر مسلمانوں نے مرزاقادیانی پر سوال کیا کہ آپ کو علماء محمدیہ نے اس لئے کافر قرار دیا ہے کہ آپ مدعی نبوت ہیں۔ جو کہ شریعت محمدیہ کے بالکل خلاف ہے اور آپ علماء کو کیوں کافر قرار دے رہے ہیں تو مرزاقادیانی نے اس کا جواب اس پیرایہ میں دیا کہ:
۲… وہ خود اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ اگر میں مفتری نہیں اور مؤمن ہوں تو اس صورت میں وہ میری تکذیب کے بعد کافر ہوئے اور مجھے کافر ٹھہرا کر اپنے کفر پر مہر لگادی۔ یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ: ’’مؤمن کو کافر کہنے والا کافر ہوجاتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
۳… ’’پھر اس جھوٹ کو دیکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمانوں اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی۔ خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتوؤں سے ایسے ہم سے متنفر ہوگئے کہ ہم سے سیدھے منہ کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک گناہ ہوگیا۔ کیا کوئی مولوی یا مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتویٰ کفر سے پہلے شائع ہوا ہے۔ جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں۔ ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر ٹھہرائیں آپ اور پھر ہم پر الزام لگائیں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے۔ اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر دل آزار ہے۔ ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے اور پھر جب کہ ہمیں اپنے فتوؤں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہوگئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو کفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے تو اس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب انہیں کے اقرار کے ہم ان کو کافر کہتے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۲۰، خزائن ج۲۲ ص۱۲۳)