رخ کی تبدیلی
مرزاقادیانی کو اپنی ان دو کتابوں کے لکھنے کے بعد اپنی شخصیت کا ایک نیا انکشاف ہوا۔ ان کو اپنی تحریر ومتکلمانہ ومناظرانہ صلاحیتوں کا علم ہوا اور ان کو اندازہ ہوا کہ ان میں اپنے ماحول کو متأثر کرنے اور ایک نئی تحریک ودعوت کو چلانے کی اچھی استعداد ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس انکشاف نے ان کے ذہن میں ایک نئی تبدیلی پیدا کی۔ اب ان کا رخ عیسائیوں اور آریہ سماجیوں سے مناظرہ کرنے کے بجائے خود مسلمانوں کو دعوت مناظرہ ومقابلہ دینے کی طرف ہوگیا۔
فصل دوم … مسیح موعود کا دعویٰ
مرزاقادیانی اور حکیم صاحب کے تعلقات
پچھلے صفحات میں ہم کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ حکیم نورالدین صاحب بسلسلۂ ملازمت جموں میں مقیم تھے۔ اسی زمانہ میں مرزاقادیانی سیالکوٹ میں حاکم ضلع کے یہاں ملازم تھے۔ دونوں میں خاص ذہنی مناسبت اور ذوقی اتحاد تھا۔ دونوں مذہبی مناظرے کے شائق اور دونوں بلند حوصلہ طبیعت رکھتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی شخصیت سے متأثر ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان ۱۸۸۵ء سے خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مرزاقادیانی کے مجموعہ مکاتیب میں پہلا خط حکیم صاحب کے نام ۸؍مارچ ۱۸۸۵ء کا ملتا ہے۔ یہ خط وکتابت برابر جاری رہتی ہے اور دونوں خانگی وازدواجی امور تک میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی، حکیم صاحب کی ملاقات کے لئے جنوری ۱۸۸۸ء میں کشمیر کا سفر اختیار کرتے ہیں اور ایک مہینہ حکیم صاحب کے پاس قیام کرتے ہیں۔ مرزاقادیانی برابر حکیم صاحب کو الہامات، مبشرات اور نادر علوم وتحقیقات سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔ وہ حکیم صاحب سے علماء کی مخالفت وتکفیر کی بھی شکایت کرتے ہیں۔ ۱۵؍جولائی ۱۸۹۰ء کے ایک خط میں وہ حکیم صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: ’’اور میں نے سنا ہے ان لوگوں نے کچھ دبی زبان سے کافر کہنا شروع کردیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خداتعالیٰ ایک بڑے امر کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ ص۷۹)
۱۸۹۰ء تک مرزاقادیانی کا دعویٰ
مرزاقادیانی نے اس وقت تک صرف مجدد ومامور ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور مصنف سیرۃ