وفات
مرزاغلام احمد قادیانی نے جب ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ پھر ۱۹۰۱ء میں نبوت کا دعویٰ کیا تو علمائے اسلام نے ان کی تردید اور مخالفت شروع کی۔ تردید اور مخالفت کرنے والوں میں مشہور عالم مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری مدیر ’’اہل حدیث‘‘ پیش پیش اور نمایاں تھے۔ مرزاقادیانی نے ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء میں ایک اشتہار جاری کیا جس میں مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’اگر میں ایسا ہی کذاب ومفتری ہوں جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام وہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تاکہ خدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے اور اگر میں کذاب ومفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اﷲ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ یعنی طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اس اشتہار کے ایک سال بعد ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرزاقادیانی بمقام لاہور میں بعد ازعشاء اسہال میں مبتلا ہوئے۔ اسہال کے ساتھ استفراغ بھی تھا۔ رات ہی کو علاج کی تدبیر کی گئی۔ لیکن ضعف بڑھتا گیا اور حالت دگرگوں ہوگئی۔ بالآخر ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء شنبہ کو دن چڑھے مرزاقادیانی نے انتقال کیا۔ مرزاقادیانی کے خسر میرناصر نواب کا بیان ہے: ’’حضرت مرزا صاحب جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جاکر سوچکا تھا۔ جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا تھا۔ جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے خطاب کر کے فرمایا میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ دوسرے دن ۱۰؍بجے کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘
(حیات ناصر)
جب کہ مولانا ثناء اﷲ صاحب نے مرزاقادیانی کی وفات کے پورے چالیس برس بعد مورخہ ۱۵؍مارچ ۱۹۴۸ء میں اسی برس کی عمر میں وفات پائی۔