قتل انبیاء کا انکار
مرزاغلام احمد قادیانی کی مصنوعی امت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت سچا نہ ہوتا تو آپ ۲۳سال کے اندر اندر ضرور قتل ہو جاتے۔ یہ دلیل خود مرزاقادیانی نے اپنی کتاب اربعین میں قرآن پاک کی ایک آیت جو حضورﷺ کی صداقت کے ثبوت میں نازل ہوئی تھی کو بنیاد بنا کر خود اپنے لئے زمین ہموار کی ہے اور عندیہ یہ دیا ہے کہ قرآن پاک اور بائبل میں جھوٹے نبی کی نشانی اس کا قتل ہونا بتائی گئی ہے۔
علماء اسلام نے مرزاغلام احمد قادیانی کی یہ دلیل یہ کہہ کر رد کر دی کہ اناجیل اور قرآن پاک دونوں میں اﷲ کے سچے نبیوں کا قتل ہوجانا بیان کیا ہے۔ اس لئے کسی مدعی نبوت کا قتل ہونا یا نہ ہونا اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کا میعار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ایسی وزنی بات ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے ماننے والے اس کے جواب سے عاجز آگئے۔ مرزابشیرالدین محمود نے قرآن پاک کی ان آیات میں معنوی تحریف کر کے اﷲتعالیٰ نے یہودیوں کے ہاتھوں انبیاء علیہم السلام کے قتل ہونے کی خبر دی اور مرزابشیرالدین نے ان معنوی تحریف کی وہ یہ ہیں۔
۱… ’’یقتلون النببیین بغیر الحق (البقرہ:۶۲)‘‘ {اور نبیوں کو ناحق قتل کرنا چاہتے تھے۔}
۲… ’’یقتلون الانبیاء بغیر حق (النسائ:۱۵۶)‘‘ {اور ان کے نبیوں کو قتل کرنے کی بلاوجہ کوشش کے سبب سے۔} (تفسیر صغیر ص۱۶، ۹۴، ۱۳۵)
اس معنوی تحریف میں مرزابشیرالدین کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے والے سچے انبیاء میں سے کوئی نبی قتل نہیں ہوا۔ اس لئے مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت کرنے کے باوجود قتل نہ ہونا ان کے سچا ہونے کی دلیل ہے۔
سوال یہ ہے کہ کلام الٰہی میں تحریف کرنا اور پھر قتل نہ ہونا یہ کس کی دلیل ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک نے جن یہودیوں کے کتاب اﷲ میں تحریف کرنے کا راز فاش کیا۔ اس مذموم حرکت کی پاداش میں ان کا قتل ہونا بیان نہیں کیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی اور مرزابشیرالدین دونوں نے قرآن پاک میں معنوی تحریف کی اور قتل نہیں ہوئے۔ کیا یہ ان کے سچے اور پکے یہودی ہونے کی دلیل نہیں ہے؟ کیا اﷲتعالیٰ نے قرآن پاک میں اﷲ کے کلام میں تحریف کرنے والوں کے بارے میں یہ نہیں کیا؟