اختلاف کیسے ہوا؟ یہ تو دو جماعتیں نہ ہوئیں۔ دو امتیں ہوئیں۔ ایک امت سچے نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی ہوئی اور دوسری امت نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزاقادیانی کی ہوئی۔ یہ حنفیہ، شافعیہ جیسا اختلاف ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ کفر وایمان کا اختلاف ہے۔ ارے قادیانیو! جب سیدنا خاتم النبیین محمد رسول اﷲﷺ کے امتی تم کو کافر کہتے ہیں اور تم ان کو کافر کہتے ہو تو حضرت محمد رسول اﷲﷺ کا دین اور تمہارا دین الگ الگ ہوا۔ پھر تم اسلام سے کیوں چپکے ہوئے ہو۔ اپنے بارے میں کھل کر اعلان کیوں نہیں کرتے کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ تمہیں مسلمانوں میں شامل اور شریک ہونے پر یہاں تک اصرار ہے کہ جب پاکستان قومی اسمبلی نے اور مسلمانوں کی تمام جماعتوں نے تمہیں کافر قرار دے دیا تو کیپ ٹاؤن کی ایک عورت (جو وہاں جج تھی) سے اپنے مسلمان ہونے کا فیصلہ کرالیا۔ علماء اسلام ماہرین قرآن وحدیث کا تمہیں کافر کہنا تو تمہارے نزدیک معتبر نہیں اور ایک یہودی عورت کا تمہیں مسلمان کہہ دیناتمہارے نزدیک معتبر ہے۔ یہ عجیب تماشا ہے۔ زندیقوں کی ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں۔
سات ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستانی قومی اسمبلی نے مرزاقادیانی کے ماننے والی دونوں جماعتوں (قادیانی اور لاہوری) کو کافر قرار دے دیا۔ اس میں تمام سیاسی اور غیرسیاسی جماعتوں کے ارکان، مسلمانوں کے تمام فرقوں کے علماء اور مشائخ اور تمام وزراء وکلاء جسٹس وغیرہ شریک تھے۔ پھر چند سال بعد حکومت پاکستان نے قادیانیوں کے بارے میں آرڈیننس جاری کیا کہ قادیانی کوئی بھی اسلامی اصطلاحی لفظ اپنے لئے استعمال نہ کریں۔ تب بھی قادیانی اپنے کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔ حالانکہ قومی اسمبلی کے اعلان کے بعد یہ بہانہ بھی ختم ہوا کہ مولوی کی عادت ہی کافر کہنے کی ہے۔
مرزاقادیانی کی شخصیت
علمائے اسلام نے جب مرزاقادیانی کی شخصیت کا ذاتی طور پر جائزہ لیا اور اس کی زندگی کے حالات پڑھے جو اس نے اور اس کے ماننے والوں نے قلم بند کئے۔ میں تو اس ناگفتہ بہ حالات سامنے آئے۔ اس کے حالات پر مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ دعاوی مرزا، کذبات مرزا، مغلظات مرزا، امراض مرزا وغیرہ عنوانات پر علمائے اسلام کی تالیفات موجود ہیں۔ ان حالات کو جان کر ایک سمجھدار آدمی آسانی سے یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ ایسا شخص نبی تو کیا ہوتا ایک شریف اور