لئے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیا کے مختلف انسانوں اور مختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا اور ایسی کشمکش کا اس کو مقابلہ کرنا ہوگا۔ جو کسی دوسری امت کو دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں آئی۔ اس امت کو جو زمانہ دیا گیا ہے۔ وہ سب سے زیادہ پرازتغیرات اور پر از انقلابات ہے اور اس کے حالات میں جتنا تنوع ہے وہ تاریخ کے کسی گزشتہ دور میں نظر نہیں آتا۔
اسلام کی بقاء اور تسلسل کے لئے غیبی انتظامات
ماحول کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اور مکان وزمان کی تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اﷲتعالیٰ نے اس امت کے لئے دو انتظامات فرمائے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس نے جناب رسول اﷲﷺ کو ایسی کامل ومکمل اور زندہ تعلیمات عطاء فرمائی ہیں جو ہر کشمکش اور ہر تبدیلی کا بآسانی مقابلہ کر سکتی ہیں اور ان میں ہر زمانہ کے مسائل ومشکلات کو حل کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ دوسرے اس نے اس کا ذمہ لیا ہے (اور اس وقت تک کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے) کہ وہ اس دین کو ہر دور میں ایسے زندہ اشخاص عطاء فرماتا رہے گا جو ان تعلیمات کو زندگی میں منتقل کرتے رہیں گے اور مجموعاً یا انفراداً اس دین کو تازہ اور اس امت کو سرگرم عمل رکھیں گے۔ اس دین میں ایسے اشخاص کے پیدا کرنے کی جو صلاحیت اور طاقت ہے اس کا اس سے پہلے کسی دین سے اظہار نہیں ہوا اور یہ امت تاریخ عالم میں جیسی مردم خیز ثابت ہوئی ہے۔ دنیا کی قوموں اور امتوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ محض اتفاقی بات نہیں ہے۔ بلکہ انتظام خداوندی ہے کہ جس دور میں جس صلاحیت وقوت کے آدمی کی ضرورت اور زہر کو جس تریاق کی حاجت تھی وہ اس امت کو عطا ہوا۔ (تاریخ دعوت وعزہمت حصہ اوّل ص۲۳)
ادیان سابقہ میں دعویداران نبوت کی کثرت
یہودی اور مسیحی تاریخ کو پڑھنے والا اس بات کو صاف طریقہ پر دیکھتا ہے کہ مدعیان نبوت کا کثرت سے پیدا ہونا یہودی دنیا کے لئے اپنے حلقۂ اثر میں اور مسیحی دنیا کے لئے اپنے حلقہ اثر میں ایک عظیم الشان آزمائش اور فتنہ بنا ہوا تھا۔ یہ ان کے لئے ایک زبردست بحران (Crisis) اور ایک اہم مسئلہ (Problem) کی حیثیت رکھتا ہے۔ راقم کو سب سے پہلے اس کی طرف توجہ علامہ اقبالؒ (اﷲتعالیٰ ان کے درجے بلند فرمائے) کی تحریر سے منعطف ہوئی کہ