ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں رسوا
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
پہلا باب
برادران اسلام! اب ہم مسئلہ ختم نبوت ’’مرزاقادیانی‘‘ کے مسلمہ اقوال کی رو سے آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یعنی ان کے حوالہ جات ان کی اپنی ہی تحریرات سے پیش کر کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ نبوت حضرت محمد مصطفیﷺ پر ختم ہوچکی ہے اور اب تاقیامت اس دنیا پر امت کے لئے کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی کی ضرورت ہے۔
جب مرزاقادیانی کی تحریرات سے علمائے کرام اہل اسلام کو اس قسم کی بوآنی شروع ہوئی کہ مرزاقادیانی مدعی نبوت ہیں۔ اسلامی عقائد سے منحرف ہورہے ہیں تو انہوں نے جابجا جلسے کر کے مرزاقادیانی کی پالیسی کی وضاحت کرنی شروع کر دی اور مرزاقادیانی پر طرح طرح کے سوالات کر کے جواب طلبی کی تو مرزاقادیانی نے علمائے اہل اسلام کی تسلی وتشفی کے لئے یوں ارشاد فرمایا:
سوال نمبر:۱…مرزاقادیانی! آپ کی تحریرات سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ آپ بھی حضور پرنور حضرت محمد مصطفی خاتم النبیینﷺ کے بعد مدعی نبوت ہیں اور آپؐ کی ختم نبوت کے منکر جو کہ سراسر اصول اسلام کے خلاف ہے۔جواب مرزا
۱… ’’میں نے سنا ہے کہ شہر دہلی میں علماء یہ مشہور کرتے ہیں کہ میں مدعی نبوت ہوں اور منکر عقائد اہل اسلام ہوں۔ اظہاراً للحق لکھتا ہوں کہ یہ سراسر افتراء ہے۔ بلکہ میں اپنے عقائد میں اہل سنت والجماعت کا عقیدہ رکھتا ہوں اور ختم المرسلین کے بعد مدعی نبوت ورسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم سے شروع ہوکر نبی کریمﷺ پر ختم ہوگئی۔ یہ وہ عقائد ہیں کہ جن کے ماننے سے کافر بھی مؤمن ہوسکتا ہے۔ میں ان عقائد پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰،۲۳۱)
۲… ’’اب میں خانہ خدا میں (یعنی جامع مسجد دہلی میں) اقرار کرتا ہوں کہ جناب کے ختم رسالت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اسے بے دین اور منکر اسلام سمجھتا ہوں اور اس کو دین اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۵۵)