مرزاقادیانی کے یہ ارشادات اس بات کے لئے کافی تھے کہ ان کے غالی عقیدت مند اور ان کے جانشین اس پر ایک بلند عمارت تعمیر کر لیں۔ جیسا کہ فرق ومذاہب کی تاریخ میں ہمیشہ پیش آتا ہے۔ چنانچہ ان کے بہت سے متبعین ان کو اکثر انبیاء پر صراحت کے ساتھ فضیلت دینے لگے۔ خود مرزابشیرالدین محمود نے حقیقت النبوۃ میں لکھا ہے: ’’دنیا میں بہت سے نبی گزرے ہیں۔ مگر ان کے شاگرد محدثیت کے درجہ سے آگے نہیں بڑھے۔ سوائے ہمارے نبی علیہ السلام کے جو اس کے فیضان نے اس قدر وسعت اختیار کی کہ اس کے شاگردوں میں سے علاوہ بہت سے محدثوں کے ایک نے نبوت کا بھی درجہ پایا اور نہ صرف یہ کہ نبی بنا بلکہ اپنے مطاع کے کمالات کو ظلی طور پر حاصل کر کے بعض اولوالعزم نبیوں سے بھی آگے نکل گیا۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۵۷)
مرزابشیرالدین محمود صاحب کے پرجوش متبعین نے اس بات کو اور بھی آگے بڑھادیا۔ (الفضل قادیان ج۱۴ نمبر۸۵) میں ہے: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے۔ آپ کا درجہ مقام کے لحاظ سے رسول کریمﷺ کا شاگرد اور آپ کا ظل ہونے کا تھا۔ دیگر انبیاء علیہم السلام میں سے بہتوں سے آپ بڑے تھے۔ ممکن ہے سب سے بڑے ہوں۔‘‘
باب سوم … مرزاقادیانی کی سیرت وزندگی پر ایک نظر
فصل اوّل … دعوت کے فروغ اور رجوع عام کے بعد مرزاقادیانی کی زندگی
مرزاقادیانی کا ابتدائی زمانہ
مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی زندگی عسرت وغربت کے ساتھ شروع کی تھی۔ زمینداری کا بڑا حصہ نکل چکا تھا۔ آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا۔ وہ خود اس دور کے متعلق لکھتے ہیں: ’’مجھے صرف اپنے دسترخوان اور روٹی کی فکر تھی۔‘‘ (نزول المسیح ص۱۱۸، خزائن ج۱۸ ص۴۹۶)
وہ پچیس برس سے گمنامی اور غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے اس زمانہ کی غربت وگمنامی کی خود تصویر کھینچی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’اس زمانہ میں درحقیقت میں اس مردہ کی طرح تھا جو قبر میں صدہا سال سے مدفون ہو اور کوئی نہ جانتا ہو یہ کس کی قبر ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۴۶۱)