فصل دوم … انگریزی حکومت کی تائید وحمایت اور جہاد کی ممانعت
برطانیہ عظمیٰ اور عالم اسلام
انیسویں صدی کے آغاز میں عالم اسلام پر یورپ کے حملے شروع ہوچکے تھے اور اس نے ممالک اسلامیہ کو اپنے اثرواقتدار میں لے لیا تھا۔ یورپ کی اس مشرقی ترکتاز میں برطانیہ عظمیٰ پیش پیش اور مشرق میں مغربی پیش قدمیوں اور سیاسی ومادی سیادت کا علمبردار ونقیب تھا۔ ہندوستان اور مصر اس کے زیر اقتدار تھے۔ دولت عثمانیہ اس کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا ہدف اور جزیرۃ العرب اس کی ہوس اقتدار سے ہر وقت خطرہ میں تھا۔
ہندوستان پر ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی عملاً انگریزی تسلط قائم ہوچکا تھا۔ شاہجہان واورنگزیب کے جانشین انگریزوں کے وظیفہ خوار اور سیاسی طور پر مفلوج ہوکر رہ گئے تھے۔ انگریز ملک کی بساط سیاست کے اصل شاطر اور سیاہ وسپید کے مالک تھے۔ ۱۷۹۹ء میں ہندوستان کے مرد مجاہد ٹیپو سلطانؒ نے میدان کارزار میں شہادت سے سرخروئی حاصل کی اور انگریزوں کے حق میں ملک کا سیاسی مطلع بالکل صاف ہوگیا۔ سلطنت کے استحکام پر اعتماد کر کے پادریوں نے مسیحیت کی صاف صاف تبلیغ شروع کی۔ اس تبلیغ کا نشانہ قدرتی طور پر زیادہ تر مسلمان تھے۔ جن سے براہ راست ملک حاصل کیاگیا تھا۔ تعلیمات اسلام اور اصول اسلام کا مضحکہ اڑایا جانے لگا۔ ملک میں اخلاقی واجتماعی انتشار وبدنظمی کا دور دورہ ہوا۔ اسلام کی اجتماعی زندگی کی بنیادیں تزلزل میں آگئیں۔ مغربی تہذیب نے مسلمانوں کے گھروں اور ان کے دل ودماغ پر چھاپہ مارا۔ نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ میں الحاد فیشن کے طور پر شروع ہوا۔
اس سب کے ردعمل میں ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ ظہور میں آیا۔ جس میں علم قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ جیسا سب کو معلوم ہے۔ انگریز اس معرکہ میں کامیاب ہوئے اور یہ ملک ایسٹ انڈیا کمپنی کے انتظام سے نکل کر براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت ہوگیا۔ زخم خوردہ فاتحین نے ہنگامہ کے اصل ذمہ دار ’’باغی مسلمانوں‘‘ سے سخت انتقام لیا۔ انہوں نے ان کو بے عزت کیا۔ ان کے علماء وصلحاء اور روساء وشرفاء کو پھانسیوں پر چڑھایا۔ اسلامی اوقاف ضبط کر لئے۔ شریفانہ ملازمت کے دروازے ان پر بند کر دئیے۔ ملک کے نظم ونسق سے ان کو کلیتہً بے دخل کر دیا۔
(ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی کتاب Our Indian Mussalmans اور سرسید کی اسباب بغاوت ہند)