ان کے آباؤ اجداد نکال باہر کئے گئے تھے) واپس لے جانے کی امیدیں دلاتے رہتے تھے۔ اکثر اوقات اور خصوصاً قدیم زمانہ میں ایسے ’’مسیح‘‘ ان مقامات پر اور ایسے زمانہ میں پیدا ہوتے تھے۔ جہاں یہود پر ظلم وستم انتہاء کو پہنچ جاتا تھا اور اس کے خلاف بغاوت کے آثار پیدا ہو جاتے تھے۔ اس قسم کی تحریکیں عموماً سیاسی نوعیت کی حامل ہوا کرتی تھیں۔ خصوصاً بعد کے زمانہ میں تو تقریباً ہر تحریک کا یہی رنگ تھا۔ اگرچہ یہ تحریکیں مذہبی عنصر سے کم عاری ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اکثر ان کے بانی بدعات کو فروغ دے کر اپنی سیادت کا دائرہ اور اثر ورسوخ بڑھانے کی کوشش کر تے تھے۔ جس کے نتیجہ میں یہودیت کی اصل تعلیمات کو بہت نقصان پہنچتا تھا۔ نئے نئے فرقے جنم لیتے اور پھر بالآخر عیسائیت یا اسلام میں ضم ہوجاتے تھے۔‘‘
(Encyclopaedia of Religions and Ethics)
مدرسہ دینیات میں یونانی، رومی اور مشرقی کلیسا کی تاریخ کے پروفیسر ہارٹ فورڈ مسیحیت کو پیش آنے والے اس ابتلاء کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ان جھوٹے نبیوں کے ظہور نے جو ماورائی حکمت (Superior Wisdom) کے مدعی ہوتے تھے۔ بہت جلد بے اعتمادی پیدا کر دی اور کلیساؤں اور ان کے رہنماؤں کو اس خطرہ کا احساس دلایا جو ان کی فلاح وبہبود کے گرد منڈلارہا تھا۔ تاہم ابھی کوئی ایسا تادیبی طریقہ وجود میں نہیں آیا تھا جو جانا پہچانا بھی ہوتا اور ان مکاروں کا زور بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جنہیں یہ دعویٰ تھا کہ خدا ان سے کلام کرتا ہے اور ان پر بذریعہ وحی اپنے راز ہائے سر بستہ منکشف کرتا ہے۔ ابھی تک ایسا کوئی معیار نہیں دریافت ہوپایا تھا جس کے ذریعہ ان مدعیان روحانیت کی صداقت کا امتحان لیا جاسکتا۔ ایسے معیار کا دریافت ہونا قطعاً ضروری تھا اور اگر یہ دریافت نہ بھی ہوتا تو بھی کلیسا اس کی تخلیق کر کے رہتا تاکہ اس کے ذریعہ مذہب کو بنیادی اصولوں میں انتشار اور زندگی کو الحاد کے راستہ پر جا پڑنے سے بچا سکے اور اس طرح خود اپنی حفاظت کا انتظام کر سکے۔‘‘
(Encyclopaedia Of Religions and Ethics. Vol:X, Pg:383)
قادیانیت کا وجود اور اس کا اصل محرک وسرپرست
علمی اور تاریخی حیثیت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ قادیانیت فرنگی سیاست