باب چہارم … تحریک قادیانیت کا تنقیدی جائزہ
فصل اوّل … ایک مستقل مذہب اور ایک متوازی امت
ایک غلط فہمی
قادیانیت کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے صدہا دینی وعلمی اختلافات اور مکاتب فکر میں سے ایک دینی وعلمی اختلاف رائے اور ایک خاص مکتب فکر ہے اور اس کے پیروامت اسلامیہ کے مذہبی فرقوں اور جماعتوں میں سے ایک مذہبی فرقہ اور جماعت ہیں اور یہ اسلام کی کلامی وفقہی تاریخ کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔
لیکن قادیانیت کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ کرنے سے یہ غلط فہمی اور خوش گمانی دور ہو جاتی ہے اور ایک منصف مزاج اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ قادیانیت ایک مستقل مذہب اور قادیانی ایک مستقل امت ہیں۔ جو دین اسلام اور امت اسلامیہ کے بالکل متوازی چلتے ہیں اور اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مرزابشیرالدین محمود کے اس بیان میں کوئی مبالغہ اور غلط بیانی نہیں کہ: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایایہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے۔ اﷲتعالیٰ کی ذات، رسول کریمﷺ ، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک جز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مرزا محمودالفضل قادیان ۳جولائی۱۹۳۱ئ)
اور یہ کہ: ’’حضرت خلیفۂ اوّل نے اعلان کیا تھا کہ ان کا (مسلمانوں کا) اسلام اورہے اور ہمارا اور ہے۔‘‘ (مرزا محمود الفضل ۳۱دسمبر۱۹۱۴ئ)
اسلام کی تاریخ میں اس سے پہلے ایک اور تحریک کی نظیر ملتی ہے۔ جس نے اسلام کا نام لیتے ہوئے اور اپنے دائرہ عمل کو مسلمانوں کے اندر محدود رکھتے ہوئے اسلام کے نظام عقائد وافکار اور نظام زندگی کے بالکل متوازی ایک نظام اعتقاد وفکر اور ایک نظام زندگی کی بنیاد ڈالی اور اسلام کے دائرہ میں ’’ریاست اندرون ریاست‘‘ کی تعمیر کی کوشش کی۔ یہ تحریک باطنیت ہے یا اسماعیلیت جس سے قادیانیت کو حیرت انگیز مماثلت حاصل ہے۔ (ہمارا اسماعیلی مذہب اس کا نظام از ڈاکٹرزاہدعلی دکن)