بیان میاں محمود احمد قادیانی خلیفہ ثانی پر چند سوال
سوال… جناب میاں صاحب! جب مرزاغلام احمد قادیانی کی تحریرات سے علمائے محمدیہ کو نبوت کی بو آئی تو انہوں نے مرزاقادیانی پر مدعی نبوت کا الزام دے کر ان کو کافر، دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ جب یہ فتویٰ تمام مسلمانوں تک پہنچ گیا تو مرزاقادیانی نے متعدد بیانات دے کر یہ ثابت کیا کہ اے لوگو میں مدعی نبوت نہیں۔ میں حضرت محمد رسول اﷲﷺ کی ذات بابرکات پر نبوت کو ختم جانتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے کہ آپﷺ خاتم النبیین ہیں۔ میری نبوت سے مراد صرف کثرت مکالمہ، مخاطبہ الٰہیہ ہے۔ میں ایک محدث ہوں اور جو حضورﷺ کے بعد مدعی نبوت ہو۔ وہ کافر، کاذب، بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ کیا ان کی تشریحات کے ساتھ آپ کو اتفاق ہے؟
جواب… ’’آنحضرتﷺ کی امت میں محدثیت ہی جاری نہیں بلکہ اس سے اوپر نبوت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۲۸ حصہ اوّل)سوال… تو پھر مرزاقادیانی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب… ’’پس یہ بات روزروشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ مگر نبوت صرف آپ کے فیضان سے مل سکتی ہے۔ براہ راست نہیں مل سکتی اور پہلے زمانہ میں نبوت براہ راست مل سکتی تھی۔ مگر کسی نبی کی اتباع سے نہیں مل سکتی تھی۔ کیونکہ وہ اس قدر صاحب کمال نہ تھے۔ جیسے آنحضرتﷺ اور جب کہ نبوت کا دروازہ علاوہ محدثیت کے امت محمدیہ میں کھلا ثابت ہوگیا ہے تو مسیح موعود نبی اﷲ تھے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۲۲۸)
سوال… میاں صاحب! مرزاقادیانی تو اپنی نبوت سے مراد صرف کثرت مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ بتا کر اپنے آپ کو محدث بتارہے ہیں اور آپ ان کو نبی اﷲ کا خطاب دے کر عوام الناس میں ان کی نبوت کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ اس کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا وجہ ہے۔ ہم تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ مدعی سست اور گواہ چست والا معاملہ ہے۔ از راہ کرم اس پر روشنی ڈالیں۔ نوازش ہوگی۔
جواب… ’’حضرت مسیح موعود چونکہ ابتداًء نبی کی تعریف یہ خیال کرتے تھے کہ نبی وہ ہے جو نئی شریعت لائے یا بعض حکم منسوخ کرے۔ یا بلاواسطہ نبی ہو یا باجود اس کے کہ وہ سب شرائط جو نبی کے لئے واقع میں ضروری ہیں۔ آپ میں پائی جاتی تھیں۔ آپ نبی کا نام اختیار کرنے سے انکار