ار مکذب یا متردد کے پیچھے نماز پڑھو۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۲۸ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷)
اسی طرح سے ان کو مسلمانوں کی نماز جنازہ پڑھنے کی بھی ممانعت ہے۔ اخبار الفضل (۱۵؍دسمبر ۱۹۲۱ئ) میں ہے: ’’حضرت مرزاصاحب نے اپنے بیٹے (فضل احمد صاحب مرحوم) کا جنازہ اس لئے نہیں پڑھا کہ وہ غیراحمدی تھے۔‘‘
میاں بشیرالدین احمد صاحب ایک مکتوب میں جو اخبار الفضل (۱۳؍اپریل ۱۹۲۶ئ) میں درج ہوا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو لوگ غیراحمدی کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کا جنازہ جائز نہیں۔ کیونکہ میرے نزدیک وہ احمدی نہیں ہے۔ انہوں نے یہاں تک فتویٰ دیا ہے کہ غیراحمدی بچے کا بھی جنازہ پڑھنا درست نہیں۔‘‘ (الفضل ج۹ نمبر۷۹)
’’جس طرح عیسائی بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا۔ اگرچہ وہ معصوم ہی ہوتا ہے اسی طرح کسی غیراحمدی بچے کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جاسکتا ہے۔‘‘ (الفضل قادیان ج۱۰ نمبر۳۲)
اسی حکم کی تعمیل میں چوہدری ظفر اﷲ خان نے (جو پاکستان کے وزیرخارجہ تھے) بانی ٔ پاکستان مسٹر جناح کے جنازہ میں موجود ہونے کے باوجود شرکت نہیں کی۔
اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو عبادات وفرائض قادیانی سلسلہ میں داخل ہونے سے پہلے ادا کئے گئے ہیں۔ وہ باطل سمجھے جاتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان سے فرض ادا نہیں ہوا۔ چنانچہ ایک استفتاء کے جواب میں یہ لکھا گیا کہ جس نے اس زمانہ میں حج فرض ادا کیا ہو کہ آپ (مرزاقادیانی) کا دعویٰ پوری طرح شائع ہوچکا اور ملک کے لوگوں پر عموماً اتمام حجت کر دیا گیا اور حضور (مرزاقادیانی) نے غیراحمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا تو اس کا حج فرض ادا نہیں ہوا۔ (اخبار الحکم قادیان مورخہ ۷؍مئی ۱۹۳۴ئ)
عقیدۂ تناسخ وحلول
مرزاقادیانی کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ تناسخ وحلول کے بھی قائل تھے اور ان کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی روح اور حقیقت ایک دوسرے کے جسم میں ظہور کرتی رہی ہیں۔ تریاق القلوب میںہے: ’’غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دوریہ ہیں۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبداﷲ پسر عبدالمطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد کے نام سے پکارا گیا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵۵، خزائن ج۱۷ ص۴۷۷)