گفت دین را رونق از محکومیت
زندگانی از خودی محرومیت
دولت اغیار را رحمت شمرد
رقصہا گرد کلیسا کرد ومرد
فصل سوم … مرزاغلام احمد قادیانی کی درشت کلامی اور دشنام طرازی
انبیاء اور ان کے متبعین کا طرز کلام
انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین کے متعلق یقین اور تواتر سے معلوم ہے کہ وہ نہایت شیریں کلام، پاکیزہ زبان، صابر ومتحمل، عالی ظرف، فراخ حوصلہ اور دشمن نواز ہوتے ہیں۔ وہ دشنام کا جواب سلام سے، بددعا کا جواب دعا سے، تکبر کا جواب فروتنی سے اور رذالت کا جواب شرافت سے دیتے ہیں۔ ان کی زبان کبھی کسی دشنام اور کسی فحش کلامی سے آلودہ نہیں ہوتی۔ وہ اگر کسی کی تردید یا مذمت کرتے ہیں تو سادہ اور واضح الفاظ میں وہ کسی کے نسب پر حملہ کرنے، اس کے خاندان یا آبائواجداد پر الزام لگانے اور درباری شاعروں اور لطیفہ گوئیوں کی طرح چٹکی لینے اور فقرہ چست کرنے کے فن سے بالکل ناآشنا ہوتے ہیں۔ ان کا کلام موافقت ومخالفت دونوں موقعوں پر ان کی سیرت اور فطرت کی طرح پاکیزہ، معتدل، متوازن اور واضح ہوتا ہے۔ صحابہ کرام آنحضرتﷺ کی تعریف میں فرماتے ہیں: ’’ماکان رسول اﷲﷺ فاحشا ولا متفحشا ولا صخّاباً فی الاسواق‘‘ {رسول اﷲﷺ نہ عادۃً سخت گو تھے نہ بہ تکلف سخت گو بنتے تھے۔ نہ بازاروں میں خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے۔} (ترمذی)
خود آپؐ نے مؤمن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’لیس المؤمن بالطّعان ولا باللّعان ولا الفاحش ولا البذی‘‘ {مؤمن نہ طعن وتشنیع کرنے والا ہوتا ہے نہ لعنت بھیجنے والا ہوتا ہے۔ نہ سخت گو نہ فحش کلام۔} (ترمذی)
اس کے مقابلہ میں آپؐ نے منافق کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان کی ہے: ’’واذا خاصم فجر‘‘ {اور جب اس کا کسی سے جھگڑا ہوتا ہے تو فوراً گالی گلوچ پر اترآتا ہے۔} (بخاری، مسلم)
حضرات انبیاء علیہم السلام اور بالخصوص جناب سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان تو