’’اگر میں ایسا ہی کذاب اور مفتری ہوں جیسا کہ آپ اکثر اوقات اپنے پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی ہی میں ہلاک ہو جاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی عمر بہت نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت اور حسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ناکام ہلاک ہو جاتا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸) اس اعلان کے بعد صرف ایک سال اور ایک ماہ بعد مرزاقادیانی ذلت اور حسرت کے ساتھ مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسریؒ جیسے دشمن کی زندگی میں ہیضہ میں مبتلا ہوکر مرگیا اور ساری دنیا کے سامنے اس کی رسوائی ظاہر ہوگئی۔
مرزاقادیانی کے جھوٹا ہونے پر بہت سے دلائل ہیں۔ جو حضرات علماء کرام نے اپنی تالیفات میں جمع کئے ہیں۔ ہم نے تو صرف دو ایسی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے۔ جن کو مرزاقادیانی نے خود اپنا سچایا جھوٹا ہونے کا معیار قرار دیا۔ پھر وہ ذلت اور محرومی کی موت مرا اور اپنے بیان کردہ معیار کے مطابق جھوٹا ثابت ہوا۔
مرزاقادیانی کی ایک اور جھوٹی پیشین گوئی
جس میں کہا تھا کہ قادیان میں طاعون نہ آئے گا
مرزاقادیانی کی ایک اور پیشین گوئی کا تذکرہ کر دینا بھی رسالہ کے موضوع سے باہر نہ ہوگا اور وہ یہ کہ مرزاقادیانی نے یہ پیشین گوئی کی تھی۔ جب تک طاعون دنیا میں رہے گا گو ستر سال تک رہے ۔ قادیان کو اس خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ (دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰)
خداوند قدوس نے اس پیشین گوئی میں بھی جھوٹے مدعی کا جھوٹا ہونا ثابت فرمادیا۔ ستر برس تو بڑی بات تھی۔ مرزاقادیانی کی زندگی ہی میں قادیان کو طاعون نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب کہ ملک کے دوسرے حصے اس وباء سے محفوظ رہے۔ نہ صرف یہ کہ قصبہ قادیان میں طاعون پھیلا۔ بلکہ مرزاقادیانی کا گھر بھی اس سے نہ بچ سکا۔
کلمہ گو ہونے کی بنیاد پر جو لوگ قادیانیوں کو کافر نہیں کہتے
وہ ایمان اور کفر کے مفہوم سے نابلد ہیں
بہت سے لوگ جنہیں ایمان کی حقیقت اور اس کے لوازم معلوم نہیں وہ قادیانیوں کو