سرسید کے خیالات اور طریقت سے بہت متاثر تھے… مگر حضرت صاحب کی صحبت سے یہ اثر آہستہ آہستہ دھلتا گیا۔‘‘ (سیرت المہدی حصہ اول ص۱۵۹،روایت نمبر۱۵۰)
لیکن حکیم صاحب کے خیالات کے مطالعہ اور ان کے تلامذہ کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ خواہ سرسید کے اثر سے، خواہ افتاد طبع سے وہ آخر تک اس طرز پر قائم رہے اور ان کا ذہن اس سانچہ میں پورے طور پر ڈھل چکا تھا اور یہ ان کا مزاج بن چکا تھا۔
حکیم صاحب کی شخصیت اور زندگی کا نفسیاتی طریقہ پر مطالعہ کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ روشن خیالی اور عقلیت پسندی کے ساتھ ساتھ ان کے اندر خوش اعتقادی اور دینی گرویدگی کا اچھا خاصہ مادہ پایا جاتا تھا۔ وہ عقلیت اور عدم تقلید کے ساتھ ساتھ الہامات اور خوابوں سے بڑے متأثر ہوتے تھے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ روشن خیالی اور حریت فکر بلکہ ذہنی بغاوت کے ساتھ ساتھ ایک ہی شخص کی شخصیت میں خوش عقیدگی اور انفعال کا بھی پورا پورا مادہ ہوتا ہے۔ وہ بعض اداروں، نظاموں اور شخصیتوں کے خلاف بڑے جوش وخروش کے ساتھ علم بغاوت بلند کرتا ہے اور آخر دم تک ان سے برسر جنگ رہتا ہے۔ لیکن کسی شخصیت ودعوت کے سامنے وہ بالکل سرافگندہ وسپرانداختہ نظر آتا ہے اور اپنے قوائے فکر کو بالکل معطل کر دیتا ہے۔ انسان کی زندگی عمل وردعمل کا ایک عجیب مجموعہ اور اس کی شخصیت مختلف عناصر کا ایک ایسا مرکب نظر آتی ہے کہ انسان ایک منفرد شخصیت نہیں بلکہ مختلف شخصیتوں کا ایک مجموعہ ثابت ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی چیز کا سمجھنا انسان کی شخصیت اور اس کے مقاصد ومحرکات کے سمجھنے سے زیادہ مشکل نہیں۔
باب دوم … مرزاغلام احمد قادیانی کے عقیدہ اور دعوت
کا تدریجی ارتقاء اور دعاوی کی ترتیب
فصل اوّل … مرزاقادیانی مصنف ومبلغ اسلام کی
حیثیت سےتصنیف ومناظرہ کے میدان میں
مرزاغلام احمد قادیانی کے متعلق اس وقت تک ہماری معلومات یہ تھیں کہ وہ ضلع گورداسپور کے ایک قصبہ میں مذہبی کتابوں کے مطالعہ میں منہمک ہیں۔ ان کی جو تصنیفات ۱۸۸۰ء کے بعد شائع ہوئی ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مطالعہ کا موضوع زیادہ تر کتب