ہے۔ وہ تحریکیں یا تو اسلام کے نظام حکومت کے خلاف تھیں یا شریعت اسلامی کے خلاف۔ لیکن قادیانیت درحقیقت نبوت محمدی کے خلاف ایک سازش ہے۔ وہ اسلام کی ابدیت اور امت کی وحدت کو چیلنج ہے۔ اس نے ختم نبوت سے انکار کر کے اس سرحدی خط کو بھی عبور کر لیا۔ جو اس امت کو دوسری امتوں سے ممتاز ومنفصل کرتا ہے اور جو کسی مملکت کے حدود کو حاجز اور حد فاصل بنانے کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سرمحمد اقبال نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں جو ہندوستان کے مشہور اخبار’’اسٹیٹس مین‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ بڑی خوبی سے قادیانیت کی اس جسارت اور جدت کو واضح کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے۔ جس کے حدود مقرر ہیں۔ یعنی وحدت الوہیت پر ایمان، انبیاء پر ایمان اور رسول کریمﷺ کی ختم رسالت پر ایمان، دراصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں؟ مثلاً برہمو سماج والے خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعہ وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریمﷺ کی ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔ ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ الگ جماعت ہے اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا۔ لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسول کریمﷺ کی شخصیت کامرہون منت ہے۔ میری رائے میں قادیانیوں کے سامنے صرف دوراہیں ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقۂ اسلام میں ہو کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۶،۱۳۷)
امت اسلامیہ کا زمانہ سب سے زیادہ پرازتغیرات ہے
یہ دین چونکہ آخری اور عالمگیر دین ہے اور یہ امت آخری اور عالمگیر امت ہے۔ اس