آیت میں ’’واؤ‘‘ جس کے معنی ’’اور‘‘ کے ہیں۔ لیکن ہم نے ’’اور‘‘ کی بجائے ’’یا‘‘ استعمال کیا ہے تاکہ مفہوم آسانی سے سمجھ میں آسکے۔ (تفسیر صغیر ص۵)
اسلامی تعلیمات کے مطابق اﷲتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے والے انبیاء پر مجموعی طور پر ایمان لانا لازمی ہے، اختیاری نہیں۔ انبیاء میں سے کسی ایک کا انکار سب انبیاء کا انکار ہے۔ اگر مرزابشیرالدین کی بات مانی جائے تو مطلب ہوگا کہ کوئی کافر ہوتا ہے تو ہوا کرے۔ مگر مرزاقادیانی کو تو نبی مانے! لطیفہ یاد آیا۔ پولوس کو لوگوں نے کہا تمہارا دعویٰ تو رسالت کا ہے۔ لیکن باتیں بے وقوفی والی کرتے ہو۔ پولوس نے جواب دیا۔
’’میں پھر کہتا ہوں کہ مجھے کوئی بے وقوف نہ سمجھے۔ ورنہ بے وقوف ہی سمجھ کر قبول کرو تاکہ میں بھی تھوڑا سا فخر کروں۔‘‘ (۲۔گرنتھیوں۱۱: ۱۶،۱۷)
عیسائیت کی حمایت، تاویل پھر تحریف
آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا دعویٰ نبوت عیسائیت سے مشروط تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی قرآن پاک کی ہر اس آیت کی تاویل کر کے اس کے مفہوم کو عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس آیت میں عیسائیوں کے خود ساختہ عقیدہ کا بطلان موجود ہے یا جس آیت سے جناب مسیح موعود علیہ السلام اور دیگر انبیاء سابقین کی طرف منسوب بائبل کے کسی بیان کی تردید ہوتی ہے۔ اپنی اس روش کے مطابق مرزاغلام احمد قادیانی نے سب سے زیادہ زور قرآن پاک کی ان آیات کی تاویل کرنے پر دیا جو جناب مسیح علیہ السلام کی موت کی نفی اور آپ کی حیات کے اثبات میں نازل ہوئی ہیں۔
دراصل موجودہ عیسائیت کی بنیاد ہی جناب مسیح علیہ السلام کی موت پر رکھی گئی ہے۔ جیسا کہ ان کا رسول پولوس عہد جدید میں لکھتا ہے۔ ’’مسیح کتاب مقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے موا اور دفن ہوا۔ تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھا۔‘‘ (۱۔گرنتھیوں ۱۵:۳)
اب اگر عیسائی اسلامی عقیدہ کے مطابق مانتے ہیں کہ جناب مسیح موعود فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ بجسد عنصری زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے ہیں تو اس سے ان کا یہ عقیدہ باطل ٹھہرتا ہے کہ جناب مسیح نے ان گناہوں کے بدلے بطور کفارہ کے اپنی جان دے دی۔
اور اسی طرح اگر وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام آسمان سے دوبارہ زمین پر واپس آئیں گے تو اس کے کچھ عرصہ بعد آپ وفات پائیں گے تو اس کی زد ان کے عقیدہ آسمان