اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ قرآن مجید کی آیات تیرہ سو برس تک معما بنی رہیں اور اس کی ہدایت تیرہ سو برس کے بعد سے شروع ہوئی۔ الفاظ کے ظاہری اور کثیر الاستعمال معنی عربیت کے اصول وقواعد، قرآن کے مخاطبین اولین کے فہم، آیات کے سیاق وسباق اور احادیث صحیحہ سے صرف نظر کر کے قرآن مجید کی تفسیر کرنا، قرآن مجید کی تحریف معنوی اور تلاعب بالقرآن (قرآن کو کھیل بنالینا ہے) جو الحاد کا دروازہ کھولتا ہے اور کلام الٰہی کو تختۂ مشق اور بازیچۂ اطفال بنادیتا ہے اور امت کے بہترین افراد اور بہترین زمانہ کی نافہمی اور جہالت کا ثبوت ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے سرسید کی تفسیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔ (مولوی محمد علی کی تفسیر پر بھی اس سے بہتر تبصرہ ممکن نہیں)
’’جو تاویلیں قرآن کریم کی نہ خدائے تعالیٰ کے علم میں تھیں۔ نہ اس کے رسول کے علم میں، نہ صحابہ کے علم میں، نہ اولیاء اور قطبوں اور غوثوں اور ابدال کے علم میں اور نہ ان پر دلالت النص نہ اشارۃ النص، وہ سید صاحب کو سوجھیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۲۷، خزائن ج۵ ص ایضاً)
فصل چہارم … قادیانیت نے عالم اسلام کو کیا عطاء کیا؟
اب جب ہم اپنے اس تحقیقی سفر کی آخری منزل پر پہنچ گے ہیں اور اس کتاب کی آخری سطریں زیرتحریر ہیں ہم کو ایک عملی اور حقیقت پسند انسان کے نقطۂ نظر سے تحریک قادیانیت کا تاریخی جائزہ لینا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے اسلام کے تاریخ اصلاح وتجدید میں کون سا کارنامہ سرانجام دیا اور عالم اسلام کی جدید نسل کو کیا عطا کیا۔ نصف صدی کے اس پرشور اور ہنگامہ خیز مدت کا حاصل کیا ہے؟ تحریک کے بانی نے اسلامی مسائل اور متنازع فیہ امور پر جو ایک وسیع ومہیب کتب خانہ یادگار چھوڑا ہے اور جو تقریباً ۷۰برس سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس کا خلاصہ اور ماحصل کیا ہے؟ قادیانیت عصر جدید کے لئے کیا پیغام رکھتی ہے؟۔
ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے پہلے ہم کو اس عالم اسلامی پر ایک نظر ڈالنی چاہئے۔ جس میں اس تحریک کا ظہور ہوا اور یہ دیکھنا چاہئے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں اس کی کیا حالت تھی اور اس کے کیا حقیقی مسائل ومشکلات تھے۔
اس عہد کا سب سے بڑا واقعہ جس کو کوئی مؤرخ اور کوئی مصلح نظر انداز نہیں کر سکتا۔