دنیا جانتی ہے کہ مرزاقادیانی کو اس کے مخالفین نے جھوٹا بھی کہا، مکار اور فریبی بھی بتایا۔ اس کے امراض کا بھی پتہ چلایا اس کے شخصی احوال سے بھی بحث کی۔ لیکن اسے ساحر یعنی جادوگر نہیں کہا اور نہ اس بات کے کہنے کا کوئی موقعہ تھا۔ کیونکہ مرزاقادیانی سے خارق العادۃ (عام عادتوں کے خلاف) کوئی چیز ظاہر ہی نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے اسے جادوگر کہا جاتا۔
حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے پیش کردہ معجزات کا مقابلہ کرنے سے ان کی قوم کے لوگ عاجز تھے۔ اس لئے انہوں نے ان کے معجزات کو جادو سے تعبیر کیا۔ اگر مرزاقادیانی سے بالفرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کسی ایسی چیز کا صدور ہوا ہوتا۔ جس سے لوگ عاجز ہیں۔ مثلاً برص والوں کے جسم پر ہاتھ پھیردینے سے برص کے مریض ٹھیک ہوگئے۱؎ ہوتے، یا اندھے بینا ہوگئے ہوتے یا ایسی کسی چیز کا صدور ہوا ہوتا، جو فخر کائنات حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ سے بطور معجزہ صادر ہوئیں۔ (مثلاً کنکریوں نے تسبیح پڑھی۔ انگلیوں سے پانی جاری ہوا۔ بیل نے بات کی، چاند کے دوٹکڑے ہوئے) تو مرزاقادیانی کو لوگ جادوگر کہتے۔ اس کے یہاں تو جھوٹی نبوت کے ثابت کرنے کے لئے جھوٹی پیش گوئیوں کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔
سورۂ صف میں جس احمد کی رسالت کی خوشخبری ہے
اس سے حضرت احمد مجتبیٰ خاتم النبیینﷺ مراد ہیں
سورۃ صف کی آیت شریفہ میں جو ’’مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد (صف:۶)‘‘ فرمایا ہے۔ اس کا مصداق حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کی ذات گرامی
۱؎ مرزاقادیانی کے ہاتھ پھیرنے سے تو کسی مریض کو کیا شفا ہوتی۔ خود اس کا اپنا یہ حال تھا۔ دایاں ہاتھ ٹوٹ گیا اور اخیر عمر تک شل رہا کہ اس ہاتھ سے پانی تک اٹھا کر نہ پیا جاسکتا۔ دانت خراب اور ان میں کیڑا لگا ہوا۔ آنکھیں اس قدر خراب کہ کھولنے میں تکلیف ہو۔ دوران سر کی اس قدر تکلیف کہ موت سے تین برس پہلے تک اور اس سے پہلے بھی متعدد سال رمضان کے روزے نہ رکھے اور کبھی اس قدر غشی پڑ جاتی کہ چیخیں نکل جاتیں اور دورے اس قدر سخت پڑتے کہ ٹانگوں کو باندھ دیا جاتا اور اس کے علاوہ ذیابیطس اور تشنج قلب اور دق کی بیماری اور حالت مردمی کالعدم اور دل ودماغ اور جسم نہایت کمزور اور پھر ان سب پر مستزاد مالیخولیا اور مراق کا موذی مرض اور ہسٹریا بھی تھا۔ (تفصیل کے لئے سیرۃ المہدی سوانح مرزا، مصنفہ مرزابشیراحمد فرزند مرزاقادیانی اور نزول المسیح، خزائن ج۱۸ مصنفہ مرزاقادیانی کا مطالعہ کریں)