’’ضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ وباء وبغضب من اﷲ‘‘ ذلت وخواری اور پستی وبدحالی ان پر مسلط ہوگئی ہے اور اﷲ کے غضب میں گھر گئے ہیں۔
علامت ایمان کا انکار
مرزابشیرالدین کو ایک مسئلہ درپیش ہوا کہ آیت ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ہم یؤقنون‘‘ میں تین حروف واؤ ہیں۔ عربی زبان میں واو حرف عطف جمع مطلق کے لئے آتا ہے۔ جو دو باتوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس آیت میں ایک واو نے حضورﷺ کی وحی پر ایمان لانے کے ساتھ آپؐ سے پہلے انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کو بھی لازم قرار دیا ہے۔ دوسرے واو نے انبیاء سابقین کی وحی اور حضورﷺ کی وحی کے ساتھ آخرت یعنی قیامت پر بھی ایمان لانے کو لازم ٹھہرایا۔ اس طرح تکمیل ایمان کی شرائط کے لحاظ سے انبیاء سابقین حضورﷺ اور آپؐ کے بعد قیامت پر ایمان لانا ضروری قرار پایا۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار تینوں شرائط ایمان سے انکار ہے اور اسی کا نام کفر ہے۔
پس ایک مسلمان کے لئے حضورﷺ کی وحی پر اور آپؐ سے پہلے انبیاء کی وحی پر اور آپؐ کے بعد کسی وحی پر نہیں بلکہ قیامت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ لہٰذا اس مقام پر قرآن پاک کی اس آیت میں پائے جانے والے لفظ آخرۃ کا ترجمہ وحی یا موعود باتیں کرنے سے انکار قیامت لازم آتا ہے۔ جو سراسر کفر ہے۔
دوم! یہ کہ چونکہ اس آیت آخرۃ سے پہلے دو وحیوں پر ایمان لانے کا ذکر ہے۔ اس لئے سیاق کلام کے اعتبار سے بھی لفظ آخرۃ کا ترجمہ وحی یا موعود باتیں نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن صاحب، داد دیجئے! ہٹ دھرمی اور ضد کی کہ مرزابشیرالدین محمود نے اس آیت میں معنوی تحریف کرتے ہوئے انبیاء سابقین کی وحی اور حضورﷺ کی وحی کے مابین پائے جانے والے حرف عطف واو کے اردو ترجمہ ۴،۵ کو اردو کے حروف تردید یا سے بدل دیا تا کہ یہ کہا جاسکے کہ چونکہ اس آیت میں آخرۃ سے پہلے دووحیوں کا ذکر ہے۔ جن پر ایمان لانا لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے۔ اس لئے یہاں آخرۃ سے مراد بعد میں آنے والی وحی ہے۔ جس پر ایمان لانا ضروری اور لازمی ہے۔ جسارت ملاحظہ ہو۔
’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ہم یؤقنون‘‘ اور جو تجھ پر نازل کیاگیا ہے یا جو تجھ سے پہلے نازل کیاگیا تھا۔ اس پر ایمان لاتے ہیں اور آئندہ ہونے والی موعود باتوں پر بھی یقین رکھتے ہیں۔