ذرا غور کرو۔ جنہیں الہام کی بنیاد پر یہ تلقین کی جاتی ہے کہ اپنے سیاسی ماحول کو اٹل سمجھو۔ پس میرے خیال میں وہ تمام ایکٹر جنہوں نے احمدیت کے ڈرامہ میں حصہ لیا ہے۔ زوال اور انحطاط کے ہاتھوں میں محض سادہ لوح کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۵۷،۱۵۸)
فصل سوم … قادیانیت کی لاہوری شاخ اور اس کا عقیدہ اور تفسیر
مولوی محمد علی اور لاہوری شاخ کا مؤقف اور عقیدہ
قادیانیت کی اس شاخ نے جس کا مرکز قادیان اور اب ربوہ (موجودہ چناب نگر) ہے اور جس کی قیادت مرزاغلام احمد قادیانی کے فرزند اکبر مرزابشیرالدین محمود کرتے ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت کے عقیدہ کو اپنی جماعت کی اساس بنایا ہے۔ وہ پوری وضاحت اور استقامت کے ساتھ اس عقیدہ پر قائم ہے۔ اس عقیدہ پر علمی واسلامی نقطۂ نظر سے جو تنقید کی جائے اور اس کو اسلام سے جس قدر بعید اور اس کے لئے خطرناک سمجھا جائے وہ درست ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس شاخ نے ایک واضح اور قطعی مؤقف اختیار کیا ہے اور اپنی اخلاقی جرأت کا ثبوت دیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ مرزاقادیانی کے منشاء کی صحیح ترجمانی ونمائندگی اور ان کی تعلیمات وتصریحات کی محض صدائے بازگشت ہے۔
لیکن لاہوری شاخ کا مؤقف (جس کی قیادت مولوی محمد علی صاحب کرتے ہیں) بڑا عجیب اور ناقابل فہم ہے۔ مرزاقادیانی کی تصنیفات اور تحریروں کا مطالعہ کرنے والا قطعی اور بدیہی طور پر دیکھتا ہے کہ وہ صاف صاف نبوت کے مدعی ہیں اور جو اس پر ایمان نہ لائے۔ اس کی تکفیر کرتے ہیں۔ اگر الفاظ کے معنی متعین ہیں اور لغت اور اہل زبان کا قول اس بارے میں قول فیصل ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ مرزاقادیانی نے یہ کتابیں ملک کی زبان میں افادہ عام کے لئے لکھی ہیں تو اس میں شبہ باقی نہیں رہتا کہ وہ اپنی کتابوں میں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میں نبی ہوں۔ صاحب وحی ہوں۔ صاحب امر ونہی اور صاحب شریعت ہوں۔ میرا منکر کافر اور جہنمی ہے۔ لیکن مولوی محمد علی، مرزاقادیانی کے خود ان کی ذات اور ان کی اولاد سے زیادہ ہمدرد ہیں۔ وہ اپنے عقیدہ میں ان کی عظمت اور ان کے کارناموں اور خدمات کی آبرو بچانا چاہتے ہیں اور دراصل وہ شعوری یا غیرشعوری طریقہ پر اپنے قلبی تعلق اور دینی عقیدت کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور اپنی روح اور دینی شعور کو اس صدمہ کی تکلیف سے بچانا چاہتے ہیں۔ جو ان کے نبوت کے دعوے اور عامہ مسلمین