پہنچا تو آپ نے مجھے خطاب کر کے فرمایا۔ میر صاحب! مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی صاف بات میرے خیال میں نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ دوسرے دن دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہو گیا۔‘‘ (حیات ناصر مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی قادیانی)
نعش قادیان لے جائی گئی۔ ۲۷؍مئی۱۹۰۸ء کو تدفین عمل میں آئی۔ حکیم نورالدین صاحب بھیروی خلیفہ اور جانشین مقرر ہوئے۔
فصل سوم … حکیم نورالدین صاحب بھیروی
مذہب وتحریک قادیانیت کی تاریخ میں اہمیت ومرکزیت کے لحاظ سے مرزاقادیانی کے بعد حکیم نورالدین بھیروی ہی کا درجہ ہے۔ بعض اہل نظر کا خیال ہے کہ حکیم صاحب اس پورے سلسلے میں دماغ کا درجہ رکھتے ہیں اور اس تحریک ونظام کا علمی وفکری سرچشمہ ان کی ذات ہے۔
نشوونما اور تعلیم
حکیم نورالدین۱؎ ۱۲۵۸ھ (۱۸۴۱ئ) میں بھیرہ (ضلع سرگودھا سابق شاہ پور پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ اس حساب سے ۱۸۵۷ء میں وہ سولہ برس کے جوان تھے اور مرزاقادیانی سے ایک ہی دو سال چھوٹے تھے۔ ان کے والد حافظ غلام رسول صاحب بھیرہ کی ایک مسجد کے امام تھے۔ ان کی سوانح میں بتایا گیا ہے کہ وہ نسباً فاروقی ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہوئی۔ اپنی والدہ صاحبہ سے پنجابی زبان میں فقہ کی کتابیں پڑھیں۔ پھر بچپن میں لاہور گئے۔ وہاں منشی محمد قاسم کشمیری سے فارسی اور مرزاامام ویردی سے کچھ خوش خطی سیکھی۔ مگر ان دونوں چیزوں سے انہیں کچھ دل چسپی نہیں ہوئی۔ یہ دونوں استاد شیعہ تھے۔ ۱۲۷۲ھ میں وہ وطن واپس آئے اور انہوں نے کچھ عرصہ تک میاں حاجی شرف الدین سے کچھ پڑھا۔ اسی زمانہ میں باضابطہ عربی کی تعلیم شروع ہوئی۔ حضرت سید احمد صاحبؒ کے مجاہدین سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کتب کے اثر وصحبت سے ان کو ترجمہ قرآن کا شوق ہوا اور انہوں نے تقویۃ الایمان اور مشارق الانوار شوق سے پڑھیں۔ کچھ عرصہ کے بعد لاہور آکر کسی قدر علم طب کی تحصیل کی۔ ابھی ابتدائی تعلیم ہی تھی کہ ۱۸۵۸ء میں انہوں نے راولپنڈی کے نارمل
۱؎ حکیم صاحب کے حالات مرقاۃ الیقین فی حیاۃ نورالدین مصنفہ اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی سے ماخوذ ہیں۔ یہ حالات حکیم صاحب کے خود سنائے ہوئے ہیں۔ اکبر شاہ خان صاحب (صاحب تصنیفات کثیرہ) نے جو اس وقت حکیم صاحب کے پیرو اور ان کے شاگرد رشید تھے۔ قلمبند کر لئے تھے۔