رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ۰ قال أقررتم واخذتم علیٰ ذالکم اصری قالوا اقررنا قال فاشہدوا وانا معکم من الشہدین‘‘
اور یاد کرو جب اﷲ نے تمام رسولوں سے عہد لیا تھا کہ جب میں تمہیں کتاب وحکمت دوں گا۔ پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا۔ جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا۔ تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی اور کہا گیا تم نے قرار کر لیا اور اس عہد پر استوار ہو گئے۔ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کر لیا۔ تب خدا نے فرمایا اب اپنے اقرار کے گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ اس بات کا گواہ ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۳۰،۱۳۱، خزائن ج۲۲ ص۱۳۳،۱۳۴)
اپنی ایک اور کتاب میں اس آیت کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرتﷺ کی امت میں داخل ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’لتومنن بہ ولتنصرنہ‘‘ بس اس طرح تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرتﷺ کی امت ہوئے۔ پھر (اب دوبارہ) حضرت عیسیٰ کو امتی بنانے کے کیا معنی ہیں اور کون سی خصوصیت ہے۔ کیا وہ اپنے پہلے ایمان سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ جو تمام نبیوں کے ساتھ لائے تھے۔ تانعوذ باﷲ (ان کو) یہ سزا دی گئی ہے کہ زمین پر دوبارہ اتار کر دوبارہ تجدید ایمان کرائی جائے۔ مگر دوسرے نبیوں کے لئے وہ پہلا ایمان کافی رہا۔ ایسی کچی باتیں اسلام سے تمسخر ہے یا نہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۱۳۳، خزائن ج۲۱ ص۳۰۰)
مرزاغلام احمد قادیانی نے یہ تاویل کر کے اپنے خیال کے مطابق جناب مسیح علیہ السلام کے دوبارہ نہ آنے کا جواز پیدا کیا اور اپنے خیال میں مسئلہ توحل کر لیا۔ لیکن نادانستہ طور پر وہ اپنے اس عقیدہ کی تردید کر گئے کہ اب حضورﷺ اسلام کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپؐ کا امتی نہ ہو۔ اب صرف آپؐ کا امتی ہی نبی آسکتا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ آپؐ کی کامل تابعداری کر کے آپؐ کے فیض سے مقام نبوت پر فائز ہوسکتا ہے۔
تاویل کے بعد تحریف
اپنے والد کے بعد مرزابشیرالدین کو دقت یہ پیش آئی کہ اگر وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تمام انبیاء سابقین حضورﷺ پہ ایمان لانے کی بناء پر آپﷺ کے امتی ہیں تو امتی نبی اور غیرامتی نبی کا امتیاز ختم ہوتا ہے۔ اس صورت میں ماننا یہ پڑتا ہے کہ اب حضورﷺ کے بعد کا کوئی امتی نبی نہیں آسکتا۔ اب آپ کا کوئی امتی بھی نبی ہوسکتا ہے کہ یہ ثابت ہوکہ آپؐ سے پہلے انبیاء آپؐ کے امتی