وہ قبول نہ کرتا۔ سب کو معلوم ہے کہ ہرگز ایسا نہیں ہوا۔ (مرزاقادیانی کو لوگوں سے چندہ لے کر اپنی ہی جیبب بھرنے سے بے نیازی نہ تھی۱؎۔ وہ دوسروں کو مال دینے کے لئے کیا بلاتا) خود قادیانیوں میں جو حسد وبغض تھا اور حکیم نورالدین اور اس کے خاندان اور دوسرے افراد کے ساتھ جو معاملات خلافت کی رسہ کشی وغیرہ کے سلسلہ میں پیش آئے ان سے صاف ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی اپنے لوگوں تک میں ہی الفت قائم نہ کر سکا۔ پھر حدیث کی پیش گوئی کا مصداق مرزاقادیانی کیسے ہوسکتا ہے؟ اہل بصیرت آنکھیں کھولیں۔
سورۂ صف کی آیت قرآنیہ میں قادیانیوں کی تحریف
قادیانیوں کی تلبیسات بہت سی ہیں۔ ان میں سے ایک بہت بڑی تلبیس یہ ہے کہ اﷲجل شانہ نے سورۃ صف میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں جو ’’مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد (صف:۴۶)‘‘ فرمایا ہے۔ اس کا مصداق اپنے مرزاقادیانی کو بتاتے ہیں اور جو لوگ قرآن وحدیث کا علم نہیں رکھتے (چاہے انہوں نے دوسرے علوم کی کتنی ہی ڈگریاں حاصل کر لی ہوں) ان کو یہ سمجھا دیتے ہیں کہ دیکھو قرآن میں مرزاقادیانی کی نبوت کی خوشخبری دی گئی۔قادیانیوں کی تلبیس اور نص قرآنی سے اس کی تردید
اس میں کئی طرح سے تلبیس اور دجل وفریب ہے۔ اوّل تو یہ کہ قرآن مجید میں احمد کی
۱؎ مرزاقادیانی پر مالیات کے سلسلہ میں خود اس کے مریدین ومتبعین اطمینان نہیں رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ قوم کی رقوم بیجا خرچ کرتا ہے۔ چنانچہ خواجہ کمال الدین مرزائی کا بیان اس طرح سے موجود ہے۔ ’’پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیاء اور صحابہ والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اﷲ کی راہ میں دیا کرتے تھے۔ اس طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچایا کرتے تھے اور پھر قادیان بھیجتے تھے۔ لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آکر ہمارے سر پر چڑھ گئیں کہ تم جھوٹے ہو۔ ہم نے قادیان میں جاکر خود انبیاء اور صحابہ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے۔‘‘
(کشف الاختلاف ص۱۳)