نہ تھے۔ سو مرزابشیرالدین نے اپنے والد کو امتی نبی بنانے کے لئے قرآن پاک کی اس آیت میں معنوی تحریف کر کے یہ ثابت کیا کہ اﷲتعالیٰ نے عالم ارواح میں حضورﷺ پر ایمان لانے کا عہد انبیاء سے نہیں بلکہ اہل کتاب سے نبیوں والا پختہ عہد لیا تھا۔ تفسیر صغیر میں آپ لکھتے ہیں: ’’اذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتٰب وحکمۃ ثم جاء کم رسول قال ء اقررتم واخذتم علیٰ ذالکم اصری قالو اقررنا۰ قال فاشہدوا وانا معکم من الشہدین‘‘
اور اس وقت کو بھی یاد کرو۔ (جب اﷲتعالیٰ نے اہل کتاب سے) سب نبیوں والا پختہ عہد لیا تھا کہ جو بھی کتاب وحکمت میں تمہیں دوں پھر تمہارے پاس کوئی (ایسا) رسول آئے جو اس کلام کو پورا کرنے والا ہو تو تم ضرور ہی اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا (اور) فرمایا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس پر میری ذمہ واری قبول کرتے ہو۔ انہوں نے کہا تھا ہم اقرار کرتے ہیں۔ فرمایا اب تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ایک گواہ ہوں۔‘‘
(ترجمہ آل عمران:۸۲، تفسیر صغیر ص۹۰ ایڈیشن ۱۹۷۹ئ)
عیسائیوں کی تقلید
یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں نظریۂ ضرورت کے تحت عقائد میں ترمیم کی جاتی ہے۔ پھر تبدیل شدہ عقیدہ کی روشنی میں کتاب مقدس بائبل کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اگر بائبل کے کسی مقام کی عبارت ان کے ترمیم شدہ عقیدہ سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو اس عبارت کو بدل دیا جاتا ہے اور اس نئی تحریف کو اپنے سادہ لوح اور عقل کے اندھے عوام سے منوانے کے لئے بائبل کے ان مقامات میں کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔ جو ان کے اس عقیدہ سے غیرمتعلق ہوں اور عندیہ یہ دیا جاتا ہے کہ بائبل میں پائی جانے والی ان اغلاط وتحریفات سے ان عقائد میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے پادری ولیم میچن صاحب لکھتے ہیں: ’’یونانی زبان سنسکرت کی طرح ایسی زبان ہے۔ جن میں الفاظ کے آگے پیچھے لگانے سے مطلب میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا اور نسخوں کی غلطیوں میں سے بہتیری غلطیاں اس قسم کی ہیں کہ ان سے مسیحی مسلمات (عقائد) کے کسی مسئلہ میں کوئی شک وشبہ پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ (تفسیر لوقا ص۲۱)
قرآن پاک میں معنوی تحریف کرنے میں مرزابشیرالدین نے یہی عیسائیوں والا رویہ اختیار کیا۔ آپ نے اپنی اہم ضرورت کے تحت سورہ البقرہ آیت۳ کے ترجمہ میں حرف عطف