عرب اور ترکستان (ترکی) میں تھی۔ اب وہ خلافت قادیان میں آجاتی ہے اور مکہ مدینہ اس کے لئے روایتی مقامات مقدسہ رہ جاتے ہیں۔
کوئی بھی احمدی چاہے عرب، ترکستان، ایران یا دنیا کے کسی بھی گوشہ میں بیٹھا ہو۔ وہ روحانی شکتی کے لئے قادیان کی طرف منہ کرتا ہے۔ قادیان کی سرزمین اس کے لئے پنیہ بھومی (سرزمین نجات) ہے اور اسی میں ہندوستان کی فضیلت کا راز پنہاں ہے۔ ہر احمدی کے دل میں ہندوستان کے لئے پریم ہوگا۔ کیونکہ قادیان ہندوستان میں ہے۔ مرزاقادیانی بھی ہندوستانی تھے اور اب جتنے خلیفہ اس فرقہ کی رہبری کر رہے ہیں۔ وہ سب ہندوستانی ہیں۔‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’یہی ایک وجہ ہے کہ مسلمان احمدیہ تحریک کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ احمدیت ہی عربی تہذیب اور اسلام کی دشمن ہے۔ خلافت تحریک میں بھی احمدیوں نے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا۔ کیونکہ وہ خلافت کو بجائے ترکی یا عرب میں قائم کرنے کے قادیان میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات عام مسلمانوں کے لئے جوہر وقت پان اسلام ازم وپان عربی سنگھٹن کے خواب دیکھتے ہیں۔ کتنی ہی مایوس کن ہو۔ مگر ایک قوم پرست کے لئے باعث مسرت ہے۔‘‘ (مضمون ڈاکٹر شنکر داس، مندرجہ اخبار بندے ماترم مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۳۲ئ)
فصل دوم … نبوت محمدی کے خلاف بغاوت
ختم نبوت انعام خداوندی اور امت اسلامیہ کا امتیاز ہے
یہ عقیدہ کہ دین مکمل ہوچکا ہے اور محمد رسول اﷲﷺ خدا کے آخری پیغمبر اور خاتم النبیین ہیں اور یہ کہ اسلام خدا کا آخری پیغام اور زندگی کا مکمل نظام ہے۔ ایک انعام خداوندی اور موہبت الٰہی تھا۔ جس کو خدا نے اس امت کے ساتھ مخصوص کیا۔ اسی لئے ایک یہودی عالم نے حضرت عمرؓ کے سامنے اس پر بڑے رشک اور حسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ قرآن کی ایک آیت ہے۔ جس کو آپ پڑھتے رہتے ہیں۔ اگر وہ ہم یہودیوں کی کتاب میں نازل ہوتی اور ہم سے متعلق ہوتی تو ہم اس دن کو جس میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اپنا قومی تہوار اور یوم جشن بنالیتے۔ اس کی مراد سورۂ مائدہ کی اس آیت ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘ سے تھی۔ جس میں ختم نبوت اور تکمیل نعمت کا اعلان کیاگیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس نعمت کی جلالت وعظمت اور اس اعلان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا فرمایا کہ ہمیں کسی نئے یوم مسرت کی ضرورت نہیں۔ یہ آیت خود ایسے موقع پر نازل ہوئی ہے۔ جو اسلام میں ایک