یا امیر المؤمنین انکم تقرؤن اٰیۃ فی کتابکم لوعلینا معشر الیہود نزلت لاتخذنا ذلک الیوم عیداً قال وای آیۃ؟ فقال قولہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی، فقال عمرؓ واﷲ انی لا علم الیوم الذی نزلت علی رسول اﷲﷺ والساعۃ التی نزلت فیہا علی رسول اﷲﷺ عشیۃ عرفۃ یوم جمعۃ‘‘
ذہنی انتشار سے حفاظت
اس عقیدہ نے اسلام کو انتشار پیدا کرنے والی اور ملت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والی ان تحریکات اور دعوتوں کا شکار ہونے سے بچایا جو تاریخ اسلام کی طویل مدت اور عالم اسلام کے وسیع ترین رقبہ میں وقتاً فوقتاً سراٹھاتی رہی ہیں۔ اسی عقیدہ کا فیض تھا کہ اسلام ان مدعیان نبوت اور محرفین دین کا بازیچۂ اطفال بننے سے محفوظ رہا۔ جو تاریخ کے مختلف وقفوں اور عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں پیدا ہوتے رہے۔ ختم نبوت کے اسی حصار کے اندر یہ ملت ان مدعیوں کی دست برد اور یورش سے محفوظ رہی جو اس ڈھانچہ کو بدل کر ایک نیا ڈھانچہ بنانا چاہتے تھے اور وہ ان تمام سازشوں اور خطرناک حملوں کا مقابلہ کر سکی۔ جن سے کسی پیغمبر کی امت اس سے پہلے محفوظ نہیں رہی اور اتنے طویل عرصہ تک اس کی دینی اور اعتقادی وحدت اور یکسانی قائم رہی۔ اگر یہ عقیدہ اور یہ حصار نہ ہوتا تو یہ امت واحدہ ایسی صدہا امتوں میں تقسیم ہو جاتی۔ جن میں سے ہر امت کا روحانی مرکز الگ ہوتا۔ علمی وتہذیبی سرچشمہ الگ ہوتا۔ ہر ایک کی الگ تاریخ ہوتی۔ ہر ایک کے الگ اسلاف اور مذہی پیشواء اور مقتداء ہوتے۔ ہر ایک کا الگ ماضی ہوتا۔
ختم نبوت کا زندگی اور تمدن پر احسان
عقیدۂ ختم نبوت درحقیقت نوع انسانی کے لئے ایک شرف وامتیاز ہے۔ وہ اس بات کا اعلان ہے کہ نوع انسان سن بلوغ کو پہنچ گئی ہے اور اس میں یہ لیاقت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ خدا کے آخری پیغام کو قبول کرے۔ اب انسانی معاشرہ کو کسی نئی وحی کسی نئے آسمانی پیغام کی ضرورت نہیں۔ اس عقیدہ سے انسان کے اندر خود اعتمادی کی روح پیدا ہوتی ہے۔ اس کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکا ہے اور اب دنیا کو اس سے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ اب دنیا کو نئی