کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام: ’’قل للمؤمنین یغضوا من ابصارہم ویحفظوا فروجہم ذالک ازکیٰ لہم‘‘ یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تیئس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے۔ جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’انّ ہذا لفی الصحف الاولیٰ صحف ابراہیم وموسیٰ‘‘ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۶) بعض اہم قطعی ومتواتر احکام شریعت کو پوری صراحت وقوت کے ساتھ منسوخ وکالعدم کر دینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے کو ایسا صاحب شریعت اور صاحب امرونہی نبی سمجھتے تھے۔ جو قرآنی شریعت کو منسوخ کر سکتا ہے۔ چنانچہ جہاد جیسے منصوص قرآنی حکم کو جس پر امت کا تعامل اور تواتر ہے اور جس کے متعلق صریح حدیث ہے۔ ’’الجہاد ماض الیٰ یوم القیامۃ‘‘ کی ممانعت کرنا اور اس کو منسوخ قرار دینا اس کا روشن ثبوت ہے۔ جہاد کی منسوخی وممانعت کے سلسلہ میں یہاں پر صرف ایک اقتباس کافی ہوگا۔
اربعین نمبر۴ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں: ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے نہیں بچا سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیﷺ کے وقت میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۳ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳)
منکرین نبوت کی تکفیر اور ان کے ساتھ کفار کا سامعاملہ
دعوائے نبوت کا قدرتی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس جدید نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کی تکفیر کی جائے۔ خود مرزاقادیانی نے اس کو صرف نبی تشریعی ہی کا حق تسلیم کیا ہے کہ اس کے نہ ماننے والوں کی تکفیر کی جائے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعویٰ سے انکار کرنے والے کو کافر کہنا نہ صرف ان نبیوں کی شان ہے۔ جو خداتعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدث ہیں تو وہ کیسے ہی جناب الٰہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکارم الٰہیہ سے سرفراز ہوں۔ ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن سکتا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۳۰ حاشیہ، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲)