دکھلائے ہیں۔ قرآن نے میری گواہی دی ہے۔ پہلے نبیوں نے میرے آنے کا زمانہ متعین کر دیا ہے کہ جو یہی زمانہ ہے اور قرآن بھی میرے آنے کا زمانہ متعین کرتا ہے کہ جو یہی زمانہ ہے اور میرے لئے آسمان نے بھی گواہی دی ہے اور زمین نے بھی، اور کوئی نبی نہیں جو میرے لئے گواہی نہیں دے چکا۔‘‘ (تحفۃ الندوہ ص۴، خزائن ج۱۹ ص۹۶)
اسی طرح حقیقت الوحی میں لکھتے ہیں: ’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں گذر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں۱؎ دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
مرزاقادیانی کی تمام مابعد تصنیفات ان تصریحات اور غیرمشتبہ عبارتوں سے لبریز ہیں۔ جن کا اس مختصر کتاب میں استیعاب ممکن نہیں۔ جس کو مزید تفصیل اور تحقیق کی ضرورت ہو۔ اس کو مرزاقادیانی کی کتاب حقیقت الوحی اور مرزابشیرالدین کی کتاب حقیقت النبوۃ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
مستقل نبوت
مرزاقادیانی کی تصنیفات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی مستقل صاحب شریعت ہونے کے بھی قائل تھے۔ انہوں نے اربعین میں تشریعی یا صاحب شریعت نبی کی تعریف کی ہے کہ جس کی وحی میں امرونہی ہو اور وہ کوئی قانون مقرر کرے۔ اگرچہ یہ امرونہی کسی نبی سابق کی کتاب میں پہلے آچکے ہوں۔ ان کے نزدیک صاحب شریعت نبی کے لئے اس کی شرط نہیں کہ وہ بالکل جدید احکام لائے۔ پھر وہ صاف صاف دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس تعریف کے مطابق صاحب شریعت اور مستقل نبی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امرونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔
۱؎ یہ مرزاقادیانی کا محض دعویٰ ہے جو سراسر تاریخی ناواقفیت اور کوتاہ علمی پر مبنی ہے۔ امت محمدیہ میں اتنی بڑی تعداد میں جس کا اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں۔ ایسے اولیائے کبار گذرے ہیں۔ جن پر بارش کی طرح فیوض روحانی الہامات ربانی اور علوم ومعارف کا فیضان ہوا۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کو وحی الٰہی کا نام نہیں دیا اور نہ کوئی دعویٰ کیا۔