اپنی تصنیفات میں اس کو بصراحت لکھنے لگے۔ ان کے رسائل کا وہ مجموعہ جس کا نام اربعین۱؎ ہے۔ منصب جدید کے اعلانات اور تصریحات سے بھرا ہوا ہے۔ مرزاقادیانی کی صاف گوئی اور صراحت بڑھتی چلی گئی۔ انہوں نے ۱۹۰۲ء میں ایک رسالہ تحفتہ الندوہ کے نام سے لکھا۔ جس کے مخاطب مجلس ندوۃ العلماء کے ارکان اور وہ تمام علماء تھے۔ جو ندوہ کے اجلاس امرتسر (منعقدہ ۱۹۰۲ئ) میں شرکت کے لئے آئے تھے۔
مرزاقادیانی اس رسالہ میں لکھتے ہیں: ’’پس جیسا کہ میں نے باربار بیان کر دیا ہے کہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں۔ یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے۔ جیسا کہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلی۲؎ اور بروزی۳؎ طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے۔ گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے۔ وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے۔ کیونکہ جس امر کو اس نے اپنے وقت پر قبول کرنا تھا۔ ردکردیا۔ میں صرف یہ نہیں کہتا کہ میں اگر جھوٹا ہوتا تو ہلاک کیا جاتا۔ بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد اور آنحضرتﷺ کی طرح میں سچا ہوں اور میری تصدیق کے لئے خدا نے دس ہزار سے زیادہ نشان
۱؎ مرزاقادیانی نے ابتداء میں اپنے قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ چالیس کی تعداد میں رسائل لکھیں گے۔ لیکن انہوں نے چار نمبروں پر اس سلسلہ کو ختم کر دیا۔ اس کی وجہ وہ خود بیان کرتے ہیں۔ ’’درحقیقت وہ امر ہوچکا جس کا میں نے ارادہ کیا تھا۔ اس لئے میں نے ان رسائل کو صرف چار نمبر پر ختم کر دیا اور آئندہ شائع نہیں ہوگا۔ جس طرح ہمارے خدائے عزوجل نے اوّل پچاس نمازیں فرض کیں۔ پھر تخفیف کر کے پانچ کو بجائے پچاس کے قرار دے دیا۔ اس طرح میں بھی اپنے رب کریم کی سنت پر ناظرین کے لئے تخفیف تصدیق کر کے نمبر۴ کو بجائے نمبر چالیس کے قرار دیتا ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۴۴۲)
۲؎ فیض محمدی سے وحی پانے کو مرزاقادیانی ظلی نبوت سے تعبیر کرتے ہیں۔
(حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۳۰)
۳؎ ایک غلطی کا ازالہ میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے سرچشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اسی کے جلال کے لئے اسی لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد ہی کو ملی۔ مگر بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۰۸)