اس طرح مولوی عبدالکریم صاحب کے اعلان خطبہ سے اس نئے دور کا افتتاح ہوگیا اور مرزاقادیانی کو معلوم ہوگیا کہ لوگ اتنے راسخ الایمان ہوچکے ہیں کہ وہ ان کے ہر دعوے کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ مرزاقادیانی کے بڑے صاحبزادے مرزابشیرالدین محمود نے بڑی خوبی سے اس حقیقت کو ظاہر کیا ہے کہ مرزاقادیانی اپنے کو ان صفات سے موصوف کرتے تھے جو غیرانبیاء میں پائی ہی نہیں جاسکتیں۔ پھر بھی وہ نبوت کا انکار کرتے تھے۔ لیکن ان کو جب اس تضاد کا احساس ہوا اور ان کو یہ اندازہ ہوا کہ ان صفات میں اور ان دعاوی میں جووہ ابھی تک کرتے رہتے ہیں۔ مطابقت نہیں ہے تو انہوں نے اپنی نبوت کا کھلا اعلان کر دیا۔ مرزامحمود قادیانی لکھتے ہیں: ’’خلاصۂ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود چونکہ ابتداء نبی کی تعریف یہ خیال فرماتے تھے کہ نبی وہ ہے جو نئی شریعت لائے یا بعض حکم منسوخ کرے یا بلاواسطہ نبی ہو۔ اس لئے باوجود اس کے کہ وہ سب شرائط جو نبی کے لئے واقع میں ضروری ہیں۔ آپ میں پائی جاتی تھیں۔ آپ نبی کا نام اختیار کرنے سے انکار کرتے تھے اور گو ان ساری باتوں کا دعویٰ کرتے رہے۔ جن کے پائے جانے سے کوئی شخص نبی ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ آپ ان شرائط کو نبی کی شرائط نہیں خیال کرتے تھے۔ بلکہ محدث کے شرائط سمجھتے تھے۔ اس لئے اپنے آپ کو محدث کہتے رہے اور نہیں جانتے تھے کہ میں دعویٰ کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں جو نبیوں کے سوا اور کسی میں پائی نہیں جاتیں اور نبی ہونے سے انکار کرتا ہوں۔ لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ جو کیفیت اپنے دعویٰ کی آپ شروع دعویٰ سے بیان کرتے چلے آئے ہیں وہ کیفیت نبوت ہے… نہ کہ کیفیت محدثیت، تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا ہے۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص۱۲۴)
بہرحال خواہ مرزاقادیانی کے اتنے عرصے تک صاف صاف دعوائے نبوت نہ کرنے کی وجہ یہ ہو کہ ان کے خیال میں نبی کے لئے نئی شریعت لے کر آنا اور بعض احکام کو منسوخ کرنا اور نبوت کا بلاواسطہ ہونا ضروری تھا۔ یہاں تک کہ ان کی یہ غلط فہمی دور ہوئی اور خدا نے ان کو اس اعلان پر مامور کیا۔ یا اس تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ ان کے نزدیک ابھی اس کا وقت نہیں آیا تھا اور ان کو اس کے لئے مناسب وقت اور ماحول کا انتظار تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ بالآخر اس طبعی نتیجہ تک پہنچ گئے۔ جس پر ان کو اپنے ان دعاوی کے بعد پہنچنا چاہئے تھا۔
تصریحات اور چیلنج
جیسا کہ مرزابشیرالدین محمود کا بیان ہے۔ ۱۹۰۱ء سے یہ بات طے ہوگئی اور مرزاقادیانی