یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ ان کے اعلانات اور دعاوی کے تدریجی منازل ایک مرتب اسکیم اور خاکے کے ماتحت ہیں اور انہوں نے ان منزلوں کو طے کرنے اور ان کا اعلان کرنے میں بڑے صبروتحمل اور احتیاط سے کام لیا۔ وہ الہام، علم باطنی اور علم یقینی کو رسول اﷲﷺ کے اتباع کامل کا لازمی نتیجہ اور ایک قدرتی منزل قرار دیتے ہیں۔ جو فنائیت فی الرسول کے بعد لازمی طور پر پیش آتی ہے۔ وہ نبوت اور نبی کا لفظ صاف صاف زبان سے کہے بغیر صفات نبوت اور خصائص نبوت پر گفتگو کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ صفات افراد امت اور کملائے امت کو بطریق طبیعت ووساطت حاصل ہوتی ہیں۔ اس منطق اور ان مقدمات کا طبعی نتیجہ یہی ہونا چاہئے تھا کہ ایک دن مرزاقادیانی نبوت کا دعویٰ کر دیں اور اس کی اپنی زبان سے تصریح کر دیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے لئے مناسب ماحول اور مناسب تقریب کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اس کا اطمینان کرلینا چاہتے تھے کہ کیا لوگوں کی عقیدت اور ان کا جذبۂ اطاعت اس درجہ پر پہنچ گیا ہے کہ وہ ان کے دوسرے دعاوی کی طرح اس کو بھی قبول کر لیں گے؟۔
اعلان اور صراحت
بالآخر یہ واقعہ پیش آگیا۔ یہ ۱۹۰۰ء کی بات ہے۔ مولوی عبدالکریم نے جو جمعہ کے خطیب تھے۔ ایک خطبۂ جمعہ پڑھا۔ جس میں مرزاقادیانی کے لئے نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کئے۔ اس خطبہ کو سن کر مولوی سید محمد احسن امروہی نے بہت پیچ وتاب کھائے۔ جب یہ بات مولوی عبدالکریم کو معلوم ہوئی تو پھر انہوں نے ایک خطبہ پڑھا اور اس میں مرزاقادیانی کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر میں غلطی کرتا ہوں تو حضور مجھے بتلائیں میں حضور کو نبی اور رسول مانتا ہوں۔ جب جمعہ ہوچکا اور مرزاقادیانی جانے لگے تو مولوی صاحب نے پیچھے سے مرزاقادیانی کا کپڑا پکڑ لیا اور درخواست کی کہ اگر میرے اس اعتقاد میں غلطی ہو تو حضور درست فرمائیں۔ مرزاقادیانی مڑ کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا، مولوی صاحب ہمارا بھی یہی مذہب اور دعویٰ ہے جو آپ نے بیان کیا۔ یہ خطبہ سن کر مولوی محمد احسن غصہ میں بھرے واپس آئے اور مسجد کے اوپر ٹہلنے لگے۔ جب مولوی عبدالکریم واپس آئے تو مولوی محمد احسن ان سے لڑنے لگے۔ آواز بہت بلند ہوگئی تو مرزاقادیانی مکان سے نکلے اور یہ آیت پڑھی: ’’یایہا الذین اٰمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۲۴)