المہدی (مرزابشیراحمد) کے بقول صرف یہ فرماتے رہے کہ: ’’مجھے اصلاح خلق کے لئے مسیح ناصری کے رنگ میں قائم کیاگیا ہے اور مجھے مسیح سے مماثلت ہے۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۳۹، روایت نمبر۴۷)
انہوں نے براہین احمدیہ میں اس خیال کو ظاہر کیاتھا کہ دین اسلام کا غلبہ جس کا وعدہ ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ میں کیاگیا ہے۔ مسیح موعود کے ذریعہ ظہور میں آئے گا۔ جن کی دنیا میں دوبارہ آمد کی احادیث میں خبر دی گئی ہے۔ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی اس پہلی زندگی کا نمونہ ہیں۔ جب وہ اس دنیا میں تھے۔
وہ لکھتے ہیں: ’’یہ آیت ’’ھو الذی ارسل رسولہ‘‘ جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشین گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے۔ وہ غلبۂ مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔ لیکن اس عاجز پر ظاہر کیاگیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور آیات اور انوار کی رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے۔ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدے اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۴۹۸،۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
ایک اہم مشورہ ۱۸۹۱ء عیسی تقویم کا وہ سال ہے۔ جو مرزاقادیانی کی زندگی اور قادیانیت کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ اسی سال کے آغاز میں حکیم صاحب نے ایک خط میں مرزاقادیانی کو مشورہ دیا کہ وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کریں۱؎۔ ہم کو حکیم صاحب کا اصل خط تو نہیں مل سکا۔ لیکن مرزاقادیانی نے اس خط کا جو جواب دیا ہے۔ اس میں حکیم صاحب کے اس مشورہ کا حوالہ ہے۔ یہ خط ان کے
۱؎ حکیم صاحب نے اپنے خط میں اگرچہ صرف مثیل مسیح کے لفظ لکھے ہیں۔ لیکن جیسا کہ فتح اسلام اور ازالہ اوہام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ مثیل مسیح اور مسیح موعود دونوں لفظ مترادف ہیں اور مرزاقادیانی ان دونوں کو ان کتابوں میں ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خود (توضیح مرام کے ص۲، خزائن ج۲ص۵۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اس نزول سے مراد درحقیقت مسیح ابن مریم کا نزول نہیں ہے۔ بلکہ استعارہ کے طور پر ایک مثیل مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے۔ جس کا مصداق حسب اعلام والہام الٰہی یہی عاجز ہے۔‘‘