غیرمعمولی تموج پیدا کر دیا۔ مسلمانوں نے عام طور پر مصنف براہین کا ایک مجدد ذی شان کے طور پر خیرمقدم کیا اور مخالفین اسلام کے کیمپ میں بھی اس گولہ باری سے ایک ہلچل مچ گئی۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۱۰۴، روایت نمبر۱۱۶)
خود مرزاقادیانی براہین احمدیہ کی تصنیف سے پہلے اپنی حالت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ وہ زمانہ تھا جس میں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ نہ کوئی موافق تھا۔ نہ مخالف، کیونکہ میں اس زمانہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور ایک احد من الناس اور زاویۂ گمنامی میں پوشیدہ تھا۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۲۷،۲۸، خزائن ج۲۲ ص۴۶۰)
اس سے آگے لکھتے ہیں: ’’اس قصبہ (قادیان) کے تمام لوگ اور دوسرے ہزارہا لوگ جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں درحقیقت میں اس مردہ کی طرح تھا جو قبر میں صدہا سال سے مدفون ہو اور کوئی نہ جانتا ہو کہ یہ کس کی قبر ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۲۸، خزائن ج۲۲ ص۴۲۰)
آریہ سماج سے مناظرہ
۱۸۸۶ء میں مرزاقادیانی نے ہوشیارپور میں مرلی دھر آریہ سماج سے مناظرہ کیا۔ اس مناظرہ کے بارہ میں انہوں نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ جس کا نام ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ ہے۔ یہ کتاب مناظرہ ٔ مذاہب وفرق میں ان کی دوسری تصنیف ہے۔
پہلے دن کے مناظرہ کا موضوع بحث ’’معجزۂ شق القمر کا عقلی ونقلی ثبوت‘‘ تھا۔ مرزا قادیانی نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ بلکہ معجزات انبیاء کی پرزور ومدلل وکالت کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ معجزات وخوارق کا وقوع عقلاً ممکن ہے۔ محدود انسانی عقل اور علم اور محدود وانفرادی تجربات کو اس کا حق نہیں کہ وہ ان معجزات وخوارق کا انکار کریں اور اس وسیع کائنات کے احاطہ کا دعویٰ کریں۔ وہ باربار اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ انسان کا علم محدود، مختصر اور امکان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کا اس پر بھی زور ہے کہ مذاہب وعقائد کے لئے ایمان بالغیب ضروری ہے اور اس میں اور عقل میں کوئی منافات نہیں۔ اس لئے کہ عقل غیرمحیط ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے رفع ونزول مسیح علیہ السلام کے بارے میں اور حضرت مسیح کے صدیوں تک آسمان میں رہنے پر جو عقلی اشکال پیش کئے ہیں اور بعد مین ان کے اندر جو عقلیت کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس کی تردید میں اس کتاب سے زیادہ موزوں کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔ اس کتاب میں مصنف کی جو شخصیت نظر آتی ہے۔ وہ بعد کی کتابوں کی شخصیت سے بہت مختلف ہے۔