کے دوستوں نے اس کی تشہیر وتبلیغ بھی بہت جوش وخروش سے کی تھی۔ اس کتاب کی کامیابی اور اس کی تاثیر کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس میں دوسرے مذاہب کو چیلنج کیا تھا اور کتاب جواب دہی کے بجائے حملہ آورانہ انداز میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کے خاص معرّفین اور پرجوش تائید کرنے والوں میں مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں اس پر ایک طویل تبصرہ یا تقریظ لکھی۔ جو رسالہ کے چھ نمبروں میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں کتاب کو بڑے شاندار الفاظ میں سراہا گیا ہے اور اس کو عصر حاضر کا ایک علمی کارنامہ اور تصنیفی شاہکار قرار دیاگیا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی مولانا، مرزاقادیانی کے دعاوی اور الہامات سے کھٹک گئے اور بالآخر وہ ان کے بڑے حریف اور مدمقابل بن گئے۔
اس کے برخلاف بعض علماء کو اسی کتاب سے کھٹک پیدا ہوئی اور ان کو یہ نظر آنے لگا کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ہے یا عنقریب دعویٰ کرنے والا ہے۔ ان صاحب فراست لوگوں میں مولانا عبدالقادر صاحب لدھیانوی مرحوم کے دونوں صاحبزادے مولانا محمد صاحب اور مولانا عبدالعزیز صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ امرتسر کے اہل حدیث علماء اور غزنوی حضرات میں سے بھی چند صاحبوں نے ان الہامات کی مخالفت کی اور اس کو مستبعد قرار دیا۔
(رسالہ اشاعت السنۃ ج۷ نمبر۶، جون۱۸۸۴ئ)
اس کتاب کی اشاعت نے مرزاقادیانی کو دفعتہ قادیان کے گوشہ گمنامی سے نکال کر شہرت واحترام کے منظر عام پر کھڑا کر دیا اور لوگوں کی نگاہیں ان کی طرف اٹھ گئیں۔
مرزابشیراحمد نے سیرۃ المہدی میں صحیح لکھا ہے: ’’براہین کی تصنیف سے پہلے حضرت مسیح موعود ایک گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے اور گوشہ نشینی میں درویشانہ حالت تھی۔ گوبراہین سے قبل بعض اخباروں میں مضامین شائع کرنے کا سلسلہ آپ نے شروع فرمادیا تھا اور اس قسم کے اشتہار سے آپ کا نام ایک گونہ پبلک میں بھی آگیا تھا۔ مگر بہت کم… دراصل مستقل طور پر براہین احمدیہ کے اشتہار نے ہی سب سے پہلے آپ کو ملک کے سامنے کھڑا کیا اور اس طرح علم دوست اور مذہبی امور سے لگاؤ رکھنے والے طبقہ میں آپ کا انٹروڈکشن ہوا اور لوگوں کی نظریں اس دیہات کے رہنے والے گمنام شخص کی طرف حیرت کے ساتھ اٹھنی شروع ہوئیں۔ جس نے اس تحدی اور اتنے بڑے انعام کی وعدے کے ساتھ اسلام کی حقانیت کے متعلق ایک عظیم الشان کتاب لکھنے کا اعلان کیا۔ اب گویا آفتاب ہدایت جو لاریب اس سے قبل طلوع کر چکا تھا۔ افق سے بلند ہونے لگا۔ اس کے بعد براہین احمدیہ کی اشاعت نے ملک کے مذہبی حلقہ میں ایک