براہین احمدیہ میں مرزاقادیانی کا عقیدہ
براہین احمدیہ کے ان چار حصوں میں جو ۱۸۸۰ء سے ۱۸۸۴ء تک شائع ہوئے ہیں۔ مرزاقادیانی نے صرف اس عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ الہام کا سلسلہ برابر جاری ہے اور جاری رہے گا اور انبیاء کی وراثت علم لدنی اور نوریقین اور علم قطعی کے باب میں جاری ہے۔ اس کتاب میں اپنی ذات کے متعلق وہ باربار اظہار کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی اصلاح اور اسلام کی دعوت کے لئے خدا کی طرف سے مامور اور عصر حاضر کے مجدد ہیں اور ان کو حضرت مسیح علیہ السلام سے مماثلت حاصل ہے۔ (سیرت المہدی حصہ اوّل ص۳۹، روایت نمبر۴۷)
اس کتاب میں ان کو حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر جانے اور دوبارہ اترنے کا بھی اقرار ہے۔ خود مرزاقادیانی نے نزول المسیح کے ضمیمہ میں جو ۱۹۰۲ء کی تالیف ہے اور براہین احمدیہ کے حصہ پنجم میں جو ۱۹۰۵ء کی تصنیف ہے۔ اس کا اعتراف اور اس امر پر اظہار تعجب کیا ہے کہ وہ اس وقت تک عقیدہ رفع ونزول مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔
(براہین احمدیہ ج۵ ص۸۵، خزائن ج۲۱ ص۱۱۱)
براہین احمدیہ میں مرزاقادیانی بڑی شدومد سے کسی جدید نبوت اور کسی جدید وحی کا انکار کرتے ہیں۔ اس لئے کہ قرآن مجید اور اس کی تعلیمات کو کسی تحریف کا خطرہ نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کے دور بت پرستی ومخلوق پرستی کی طرف واپس جانے کا کوئی اندیشہ ہے۔ بلکہ اس کے برعکس مشرکین کی طبیعتیں بباعث متواتر استماع تعلیم فرقانی اور دائمی صحبت اہل توحید کچھ کچھ توحید کی طرف میل کرتی جاتی ہیں اور نبوت ووحی کا کام انہیں دونوں خطرات کا سد باب کرنا اور انہیں دونوں خرابیوں کی اصلاح ہے۔ اس لئے اب کسی جدید شریعت اور کسی نئے الہام کی ضرورت نہیں اور یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اﷲﷺ خاتم رسل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اور جب کہ قرآن مجید کے اصول حقہ کا محرف ومبدل ہوجانا یا پھر ساتھ اس کے تمام خلقت پر تاریکی شرک اور مخلوق پرستی کا بھی چھا جانا، عند العقل محال وممتنع ہوا تو نئی شریعت ونئے الہام کے نازل ہونے میں بھی امتناع عقلی لازم آیا۔ کیونکہ جو امر مستلزم محال ہو۔ وہ بھی محال ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ حقیقت میں خاتم رسل ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۱۱ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۱۰۳)
کتاب کا اثر اور اس کا ردعمل
معلوم ہوتاہے کہ ہندوستان کے بہت سے علمی ودینی حلقوں میں اس کتاب کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب بہت صحیح وقت پر شائع ہوئی تھی۔ مرزاقادیانی اور ان