کتاب پر ایک اجمالی نظر
جو شخص براہین احمدیہ کا مطالعہ کرے گا وہ مصنف کی بسیار نویسی، دراز نفسی اور صبر وجفاکشی سے ضرور متأثر ہوگا۔ یہ تمام صفات ایسی ہیں جو مصنف کو عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کے مقابلہ میں زیادہ سے زیادہ ایک کامیاب مناظر اور ایک بڑا مصنف ثابت کرتی ہیں۔ لیکن کتاب کے پڑھنے والے کو اس ضخیم دفتر میں کوئی نادر علمی تحقیق اور مسیحیت کے مآخذ اور اس کی قدیم کتابوں اور اس کے اسراروحقائق سے اس طرح کی واقفیت نہیں نظر آتی جو مولانا رحمت اﷲ صاحب کیرانوی (م۱۳۰۹ھ) مصنف اظہار الحق وازالۃ الاوہام وغیرہ کی تصنیفات میں نظر آتی ہے نہ وہ شیریں گفتاری اور ندرت استدلال نظر آتی ہے۔ جو مولانا محمد قاسمؒ نانوتوی (م۱۲۹۷ھ) مصنف تقریر دل پذیر وحجۃ الاسلام وغیرہ کی خصوصیت ہے۔
الہامات ودعاوی
پڑھنے والے کو اس کتاب میں اس کثرت سے الہامات اور خوارق، کشف، مکالمات خداوندی پیش گوئیاں اور طویل وعریض دعوے ملتے ہیں۔ جن سے اس کی طبیعت بدمزہ ومنغص ہوجاتی ہے اور کتاب ایک پاکیزہ علمی بحث اور ایک مہذب دینی مباحثہ کے بجائے ایک مدعیانہ تصنیف بن جاتی ہے۔ جس میں مصنف نے اپنی شخصیت کا صاف صاف اشتہار دیا ہے اور جگہ جگہ اس کا ڈھنڈورا پیٹا ہے۔
کتاب کا مرکزی مضمون اور جوہریہ ہے کہ الہام کا سلسلہ نہ منقطع ہوا ہے نہ اس کو منقطع ہونا چاہئے۔ یہی الہام دعوے کی صحت اور مذہب وعقیدے کی صداقت کی سب سے زیادہ طاقتور دلیل ہے۔ جو شخص رسول اﷲﷺ کا اتباع کامل کرے گا۔ اس کو علم ظاہر اور علم باطن سے سرفراز کیا جائے گا۔ جو انبیاء علیہم السلام کو اصالتاً عطاء ہوا تھا اور اس کو علم یقینی اور علم قطعی حاصل ہوگا۔ اس کا علم لدنی انبیاء کے علم سے مشابہ ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں امثل کے لفظ سے اور قرآن مجید میں صدیق کے لفظ سے یاد کیاگیا ہے۔ ان کے ظہور کا زمانہ انبیاء کی بعثت کے زمانہ سے مشابہ ہوگا اور انہیں سے اسلام کی حجت قائم ہوگی اور ان کا الہام یقینی وقطعی الہام ہوگا۔
(براہین احمدیہ ص۲۳۳،۲۳۴، خزائن ج۱ ص۲۵۷،۲۵۸) اس الہام کے بقاء وتسلسل کے ثبوت میں انہوں نے بطور نمونہ اپنے طویل الہامات کا ایک سلسلہ نقل کیا ہے۔ وہ براہین احمدیہ میں لکھتے ہیں: ’’اس الہام کی مثالیں ہمارے پاس بہت ہیں۔ مگر جوا بھی اس حاشیہ کے تحریر کے وقت یعنی مارچ ۱۸۸۲ء میں ہوا ہے۔ جس میں یہ امر غیبی