مذاہب اور خاص طور پر مسیحیت، سناتن دھرم اور آریہ سماج کی کتابیں ہیں۔
یہ دور مذہبی مناظروں کا دور تھا اور اہل علم کے طبقہ میں سب سے بڑا ذوق، مقابلہ مذاہب اور مناظرۂ فرق کا پایا جاتا تھا۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ عیسائی پادری مذہب مسیحیت کی تبلیغ ودعوت اور دین اسلام کی تردید میں سرگرم تھے۔ حکومت وقت جس کا سرکاری مذہب مسیحیت تھا۔ ان کی پشت پناہ اور سرپرست تھی۔ وہ ہندوستان کو یسوع مسیح کا عطیہ اور انعام سمجھتی تھی۔ دوسری طرف آریہ سماجی مبلغ جوش وخروش سے اسلام کی تردید کر رہے تھے۔ انگریزوں کی مصلحت (جو ۱۸۵۷ء کی متحدہ کوشش اور ہندوستان کے اتحاد کی چوٹ کھا چکے تھے) یہ تھی کہ ان مناظرانہ سرگرمیوں کی ہمت افزائی کی جائے۔ اس لئے کہ ان کے نتیجہ میں ملک میں ایک کشمکش اور ذہنی واخلاقی انتشار پیدا ہوتا تھا اور تمام مذاہب اور فرقوں کو ایک ایسی طاقتور حکومت کا وجود غنیمت معلوم ہوتا تھا جو ان سب کی حفاظت کرے اور جس کے سایہ میں یہ سب امن وامان کے ساتھ مناظرہ ومباحثہ کرتے رہیں۔ ایسے ماحول میں جو شخص اسلام کی مدافعت اور مذاہب غیر کی تردید کا علم بلند کرتا وہ مسلمانوں کا مرکز توجہ وعقیدت بن جاتا۔
مرزاقادیانی کی حوصلہ مند طبیعت اور دوربین نگاہ نے اس میدان کو اپنی سرگرمیوں کے لئے انتخاب کیا۔ انہوں نے ایک بہت بڑی ضخیم کتاب کی تصنیف کا بیڑہ اٹھایا۔ جس میں اسلام کی صداقت، قرآن کے اعجاز اور رسول اﷲﷺ کی نبوت کو بدلائل عقلی ثابت کیا جائے گا اور بیک وقت مسیحیت، سناتن دھرم، آریہ سماج اور برہمو سماج کی تردید ہوگی۔ انہوں نے اس کتاب کا نام ’’براہین احمدیہ‘‘ تجویز کیا۔
براہین احمدیہ اور مرزاقادیانی کا چیلنج
براہین احمدیہ کی تصنیف ۱۸۷۹ء سے شروع ہوتی ہے۔
(سیرت المہدی حصہ دوم ص۱۵۱، روایت نمبر۴۶۷)
مصنف نے ذمہ داری لی کہ وہ اس کتاب میں صداقت اسلام کی تین سودلیلیں پیش کرے گا۔ مرزاقادیانی نے ملک کے دوسرے اہل علم اور اہل نظر حضرات اور مصنفین سے بھی کتاب کے موضوع کے سلسلہ میں خط وکتابت کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے خیالات اور مضامین بھیجیں۔ جن سے اس کتاب کی تصنیف میں مدد لی جائے۔ جن لوگوں نے ان کی اس دعوت کو قبول کیا۔ ان میں مولوی چراغ علی صاحب بھی تھے۔ جو سرسید کی بزم علمی کے ایک اہم رکن تھے۔ مرزاقادیانی نے ان کے مضامین وتحقیقات کو بھی کتاب میں شامل کیا۔