بنادیا۔ ہزار نالائقیاں مجھ پر تھوپو، مجھ پر نہیں خدا پر لگیں گی۔ جس نے مجھے خلیفہ بنایا۔‘‘
(رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان ص۲۳۴، نمبر۲ ج۱۴)
ایک دوسرے موقع پر فرمایا: ’’مجھے خدا نے خلیفہ بنادیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہوسکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔ اگر تم زیادہ زور دوگے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزادیں گے۔‘‘
(تشحیذ الاذہان قادیان ج۹ نمبر۱۱)
وفات
حکیم صاحب چھ سال تک منصب خلافت پر فائز رہے۔ وہ گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے اور صاحب فراش ہوگئے اور اسی صدمہ سے ۱۳؍مارچ ۱۹۱۴ء کو انتقال کیا۔ انتقال سے چند روز پہلے ان کی زبان بند ہوگئی تھی۔ (الفضل مورخہ ۲۳؍فروری ۱۹۳۲ئ)
انہوں نے مرزابشیرالدین محمود فرزند اکبر مرزاغلام احمد قادیانی کو اپنا جانشین وخلیفہ منتخب کیا۔
حکیم صاحب کی شخصیت اور ذہن ومزاج حکیم صاحب کی داستان زندگی پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بے چین طبیعت پائی تھی۔ وہ اپنی زندگی کے بڑے حصے میں ذہنی کشمکش میں مبتلا رہے۔ ان میں شروع سے عقل پرستی کا رجحان پایا جاتا تھا۔ پہلے وہ مذاہب اربعہ کی تقلید کی بندش سے آزاد ہوئے اور اس میں ان کو خاصا غلو رہا۔ پھر وہ سرسید احمد خان مرحوم کے لٹریچر سے متأثر ہوئے اور ان کے ذہن نے ان کی تعلیمات اور ان کے طرز فکر کو پورے طور پر جذب کر لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہندوستان میں سائنس اور طبیعات کی ابتدائی معلومات اور اس کی نئی تحقیقات نئی نئی آئی تھیں اور ہندوستانی مسلمانوں کا عقلیت پسند طبقہ ان سے بڑا متأثر ہورہا تھا۔ جو لوگ دینی رجحان رکھتے تھے۔ وہ دینی حقائق اور قرآن کے بیان وتعلیمات کو ان طبیعاتی معلومات وتحقیقات کے ساتھ منطبق کرتے اور اگر آسانی سے منطبق نہ ہوسکتیں تو قرآن مجید کی آیات اور الفاظ کی بڑی سے بڑی تاویل اور توجیہہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حکیم صاحب کا درس تفسیر اس طرز فکر اور اس ذہنی رجحان کا ایک نمونہ تھا۔
(اس کا نمونہ ان کے حلقۂ درس کے نامور تربیت یافتہ مولوی محمد علی لاہوری کی تفسیر بیان القرآن اردو، انگریزی میں دیکھا جاسکتا ہے)
مرزابشیراحمد سیرۃ المہدی میں لکھتے ہیں: ’’حضرت نورالدین صاحب خلیفہ اوّل بھی