قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دیں تو بھی مجھے انکار نہ ہو۔ کیونکہ جب ہم نے واقعی آپ کو صادق اور منجانب اﷲ پایا ہے تو اب جو بھی آپ فرمائیں گے وہی حق ہوگا اور ہم سمجھ لیں گے کہ آیت خاتم النبیین کے کوئی اور معنی ہوں گے۔ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۹۸،۹۹، روایت نمبر۱۰۹)
حکیم صاحب نے جموں کے تعلق ہی کے زمانہ میں مرزاقادیانی کی ہدایت وتلقین سے عیسائیت کی تردید میں ’’فصل الخطاب‘‘ کے نام سے ایک کتاب چارجلدوں میں لکھی۔ وہ مرزاقادیانی کی تصانیف کی طباعت واشاعت کے مصارف میں بڑی عالی حوصلگی اور دریادلی سے حصہ لیتے رہے اور مرزاقادیانی نے بارہا ان سے بیش قرار رقمیں قرض لیں اور ان کی حمیت اسلامی نصرت دینی اور بلند ہمتی کا اعتراف کیا۔ (مکتوبات احمدیہ ج۵ حصہ دوم ص۴۵)
مرزاقادیانی کا ان کے بارے میں مشہور شعر ہے ؎
چہ خوش بودے اگر ہریک زامت نوردیں بودےہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے
(مرقاۃ الیقین ص۱۷)
قیام قادیان وخلافت
بعض اسباب اور کار پرداز ان ریاست کے جوڑتوڑ سے مہاراجہ کی طبیعت حکیم صاحب سے کبیدہ اور کشیدہ ہوگئی اور ۱۸۹۳ء یا ۱۸۹۴ء میں یہ تعلق ملازمت ختم ہوگیا اور حکیم صاحب اپنے وطن بھیرہ چلے گئے۔ جہاں کچھ عرصہ قیام اور مطب کرنے کے بعد وہ مستقل طور پر قادیان منتقل ہوگئے اور انہوں نے اپنی زندگی مرزاقادیانی کی حمایت اور تحریک کی دعوت واشاعت کے لئے وقف کر دی۔
مرزاقادیانی کی وفات (۲۶؍مئی ۱۹۰۸ئ) پر وہ مرزاقادیانی کے خلیفۂ اوّل قرار پائے۔ لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خلیفۃ المسیح الموعود اور نورالدین اعظم ان کا خطاب ہوا۔ حکیم صاحب کو ایک عرصہ تک ان لوگوں کی تکفیر میں تردد تھا۔ جو مرزاقادیانی کی نبوت پر ایمان نہیں لائے تھے۔ لیکن پھر وہ ان کی تکفیر کے قائل ہوگئے۔ (کلمتہ الفصل ص۱۲۰،۱۲۱)
حکیم صاحب کی خلافت کے بارے میں کچھ تنازعہ بھی پیش آیا اور کچھ لوگوں نے ان کی خلافت پر سخت اعتراضات کئے۔ ایک ایسے ہی موقع پر انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے خدا ہی نے خلیفہ بنایا۔ سو اب کس میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی ردا کو مجھ سے چھین لے۔ اﷲتعالیٰ کی مشیت نے چاہا اور اپنے مصالح سے چاہا۔ مجھے تمہارا امام وخلیفہ