وہمراز بن گئے۔ (مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲) جب مرزاقادیانی نے براہین احمدیہ تصنیف کی تو حکیم صاحب نے تصدیق براہین احمدیہ کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ حکیم صاحب کی مرزاقادیانی سے عقیدت وشیفتگی بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ مرزاقادیانی سے بیعت بھی ہوگئے تھے اور انہوں نے ان کو اپنا پیرومرشد اور امام اور مقتداء مان لیا تھا۔ حکیم صاحب کے مندرجہ ذیل خط سے ان کے اس گہرے تعلق اور عقیدت کا پتہ چلتا ہے۔
مولانا، مرشدنا، امامنا، السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘
عالی جناب! میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زماں سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا ہے۔ وہ مطالب حاصل کروں۔ اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفادے دوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دوں۔ میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرا نہیں ہے۔ آپ کا ہے۔ حضرت پیرومرشد! میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال ودولت اگر دینی اشاعت میں قربان ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجالاؤں کہ ان کی تمام قیمت ادا کردہ اپنے پاس سے واپس کر دوں۔ حضرت پیرومرشد! نابکار شرمسار عرض کرتا ہے۔ اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے۔ میرا منشاء ہے کہ براہین کے طبع کا تمام خرچ مجھ پر ڈال دیا جائے۔ پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو۔ مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ دعا فرمائیں کہ میری موت صدیقوں کی موت ہو۔ (مرقاۃ الیقین ص۱۷،۱۸)
حکیم صاحب مرزاقادیانی کے بارے میں ایسے راسخ الاعتقاد تھے کہ جب مرزاقادیانی نے ’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ تصنیف کیں اور حکیم صاحب کو ابھی دیکھنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ ایک شخص نے حکیم صاحب سے کہا کہ کیا نبی کریمﷺ کے بعد بھی کوئی نبی ہوسکتا ہے؟ حکیم صاحب نے کہا، نہیں۔ اس نے کہا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو پھر؟ حکیم صاحب نے کہا تو پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ صادق وراست باز ہے یا نہیں۔ اگر صادق ہے تو بہرحال اس کی بات کو قبول کریں گے۔ حکیم صاحب نے یہ روایت خود ہی سنائی اور یہ قصہ سنا کر فرمایا کہ یہ تو صرف نبوت کی بات ہے۔ میرا تو ایمان یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کریں اور