حکیم صاحب نے مکہ معظمہ میں شیخ محمد خزرجی سے ابوداؤد، سید حسین سے صحیح مسلم اور مولانا رحمت اﷲ صاحب کیرانوی (صاحب اظہار الحق) سے مسلم الثبوت پڑھنا شروع کیا۔ بعض مرتبہ اساتذہ سے مباحثہ ہوتا تھا اور ان کا عدم تقلید کا رجحان اور اپنی رائے اور فہم پر اعتماد واصرار کا اظہار ہوتا تھا۔ (مرقاۃ الیقین ص۹۵،۹۶)
حکیم صاحب نے ابوداؤد، ابن ماجہ شیخ محمد خزرجی سے ختم کیں۔ اسی دوران میں حضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ مکہ معظمہ تشریف لائے۔ شاہ صاحب جب مدینہ منورہ واپس گئے تو حکیم صاحب بھی مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور شاہ صاحب کے ہاتھ پر بیعت سلوک کی اور چھ مہینے ان کی خدمت میں ٹھہر کر استفادہ کیا۔
قیام وطن اور ملازمت
حکیم صاحب حج وزیارت سے فارغ ہوکر اپنے وطن بھیرہ واپس آئے اور یہاں کچھ عرصہ قیام کیا۔ اس دوران میں عمل بالحدیث اور رسوم مروجہ کے سلسلے میں ان کے اور اہل شہر کے درمیان بحث ومباحثہ اور ردوکد ہوئی اور اس کے نتیجہ میں شہر میں ایک عام برہمی اور شورش پیدا ہوئی۔ حکیم صاحب کی طبیعت میں لوگوں کی جہالت اور جمود وتعصب اور اپنے علمی تفوق اور تبحر کا احساس پیدا ہوا۔ اسی دوران وہ دہلی بھی گئے۔ جہاں لارڈ لٹن کا دربار ہورہا تھا۔ وہاں منشی جمال الدین خان صاحب مدار المہام بھوپال سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور وہ اپنے ساتھ ان کو بھوپال لے آئے۔ کچھ عرصہ وہ وہاں قیام کر کے وطن واپس آئے اور بھیرہ میں مطب شروع کردیا۔ ان کی حذاقت اور کمال فن کا شہرہ سن کر مہاراجہ جموں نے ان کو اپنا طبیب خاص مقرر کر لیا اور انہوں نے ایک عرصہ تک جموں، پونچھ اور کشمیر کے والیان ریاست کی خدمت کی۔ حکیم صاحب نے اپنی طبی مہارت، طلاقت لسانی اور علم وذکاوت سے ریاست میں بڑا اثر ورسوخ پیدا کر لیا تھا اور وہ ریاست کے امور اور مہاراجہ کے مزاج میں خاصے دخیل ہوگئے تھے۔
مرزاقادیانی سے تعارف وتعلق
جموں کے زمانۂ قیام ہی میں حکیم صاحب کا مرزاقادیانی سے تعارف ہوا۔ جو بسلسلۂ ملازمت سیالکوٹ میں مقیم تھے۔ غالباً بھیرہ آتے جاتے وہ سیالکوٹ سے گزرتے تھے اور ہم مذاقی اور طبعی مناسبت کی وجہ سے وہ مرزاقادیانی سے ملتے ہوئے جاتے تھے۔ (دونوں کو مذاہب غیر کے مطالعہ اور آریہ سماع وعیسائیوں کی تردید ومناظرہ کا شوق تھا۔)
یہ تعارف وملاقات بہت جلد دوستی میں تبدیل ہوگئی اور دونوں ایک دوسرے کے ہمدم