اسکول میں ملازمت کر لی۔ خود فارسی پڑھاتے تھے اور ایک ماسٹر سے حساب وجغرافیہ پڑھتے تھے۔ ایک تحصیلی امتحان میں کامیابی حاصل کر کے وہ پنڈ دادن خان میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے اور عربی کی تعلیم دوبارہ شروع کی۔ چار برس کے بعد ملازمت سے تعلق جاتا رہا اور وہ پورے طور پر اپنی تعلیم کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوئے۔ کچھ عرصہ مولوی احمد الدین صاحب سے (جو بگے والے قاضی صاحب کے نام سے مشہور تھے) پڑھا۔ پھر شوق علم میں ہندوستان کا سفر کیا اور رام پور میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہاں مشکوٰۃ مولانا حسن شاہ صاحب سے، شرح وقایہ مولوی عزیز اﷲ صاحب افغانی سے، اصول الشاشی ومیبذی مولانا ارشاد حسین صاحب سے، دیوان متنبی مولوی سعد اﷲ صاحب سے، صدرا وغیرہ مولوی عبدالعلی صاحب سے پڑھیں۔ منطق کی منتہیانہ کتابیں میرزاہد رسالہ ومیر زاہد ملا جلال بھی بے دلی اور بے رغبتی سے پڑھیں۔ اس زمانہ میں حکیم صاحب کو مولانا اسماعیل شہید کی حمایت کا بڑا جوش تھا اور کبھی کبھی وہ اپنے اساتذہ سے بڑی بے باکی اور دلیری سے گفتگو کرتے تھے۔ رام پور سے حکیم صاحب لکھنؤ آئے اور وہاں کے ایک نامی طبیب حکیم علی حسین صاحب سے طب کی تعلیم شروع کی۔ حکیم صاحب نے جب نواب کلب علی خان مرحوم کی طلبی پر رام پور کا قصد کیا تو وہ بھی ساتھ گئے۔ رام پور کے دوران قیام میں انہوں نے مفتی سعد اﷲ صاحب سے مزید ادب کی تعلیم حاصل کی۔ حکیم نورالدین صاحب حکیم علی حسین صاحب لکھنوی کی صحبت وخدمت میں مجموعی طور پر دوبرس رہے۔ رام پور سے عربی کی تکمیل اور درس حدیث کے شوق میں وہ بھوپال آئے۔ جو اس وقت رئیسہ بھوپال کی قدردانی اور نامی گرامی علماء کے اجتماع کی وجہ سے ایک بڑا علمی مرکز بن گیا تھا۔ وہاں منشی جمال الدین خان صاحب مدار المہام نے ان کی سرپرستی کی اور اپنے پاس ٹھہرایا۔ بھوپال میں انہوں نے مولانا مفتی عبدالقیوم صاحب (فرزند مولانا عبدالحئی صاحب بڈھانوی خلیفہ حضرت سید احمد شہیدؒ) سے بخاری اور ہدایہ کا درس لیا۔ بھوپال سے انہوں نے تکمیل علم اور حصول سعادت کی نیت سے حرمین شریفین کا قصد کیا۱؎۔ ۱؎ یہاں پر یہ لطیفہ قابل شنید ہے جو حکیم صاحب نے اپنے حالات بیان کرتے ہوئے خود سنایا کہ انہوں نے مفتی عبدالقیوم صاحب سے چلتے وقت عرض کیا کہ مجھے وصیت کیجئے۔ مفتی صاحب نے فرمایا: ’’خدانہ بننا اور رسول نہ بننا۔‘‘ مفتی صاحب نے اس کی تشریح کی کہ خدا نہ بننے سے مراد یہ ہے کہ اگر تمہاری کوئی خواہش پوری نہ ہو تو کبیدہ خاطر نہ ہونا۔ اس لئے کہ ’’فعال لما یرید‘‘ خدا ہی کی صفت ہے اور اگر کوئی تمہارا فتویٰ نہ مانے تو اس کو جہنمی نہ سمجھنا۔ اس لئے کہ یہ رسولؐ ہی کی صفت ہے کہ اس کی نافرمانی سے لوگ جہنم میں جائیں گے۔ (مرقاۃ الیقین ص۸۸)