مرزاقادیانی کی بقیہ اولاد انہیں کے بطن سے ہے۔ ان سے تین صاحبزادے ہیں۔ مرزابشیرالدین محمود، مرزابشیراحمد (مصنف سیرۃ المہدی) مرزاشریف احمد۔
وفات
مرزاغلام احمد قادیانی نے جب ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔
(تفصیل کے ملاحظہ ہو باب ثانی فصل دوم)
پھر ۱۹۰۱ء میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ (ملاحظہ ہو باب ثانی فصل سوم)
تو علمائے اسلام نے ان کی تردید ومخالفت شروع کی۔ تردید ومخالفت کرنے والوں میں مشہور عالم مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ مدیر اہل حدیث پیش پیش اور نمایاں تھے۔ مرزاقادیانی نے ۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو ایک اشتہار جاری کیا۔ جس میں مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’اگر میں ایسا ہی کذاب ومفتری ہوں۔ جیسا کہ اکثر اوقات آپ اپنے ہر ایک پرچہ میں مجھے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کی زندگی میں ہی ہلاک ہوجاؤں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مفسد اور کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی اور آخر وہ ذلت وحسرت کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے اور اس کا ہلاک ہونا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تاخدا کے بندوں کو تباہ نہ کرے۔‘‘
’’اور اگر میں کذاب ومفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سنت اﷲ کے موافق آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں سے ہے۔ یعنی طاعون ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں۱؎۔ تومیں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸)
اس اشتہار کے ایک سال بعد ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرزاقادیانی بمقام لاہور بعد عشاء اسہال میں مبتلا ہوئے۔ اسہال کے ساتھ استفراغ بھی تھا۔ رات ہی کو علاج کی تدبیر کی گئی۔ لیکن ضعف بڑھتا گیاا ورحالت دگرگوں ہوگئی۔ بالآخر ۲۶؍مئی سہ شنبہ کو دن چڑھے آپ نے انتقال کیا۔ مرزاقادیانی کے خسر میر ناصر نواب صاحب کا بیان ہے۔
’’حضرت مرزاصاحب جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جاکر سوچکا تھا۔ جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا گیا تھا۔ میں جب حضرت صاحب کے پاس
۱؎ مولانا نے مرزاقادیانی کی وفات کے پورے چالیس برس بعد ۱۵؍مارچ ۱۹۴۸ء میں اسی برس کی عمر میں (سرگودھا میں) وفات پائی۔