نہیں رکھتی اور ادنیٰ درجہ کی محنت اور خوض وتوجہ سے جلد بگڑ جاتی ہے۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ ص۱۰۳، نمبر۲)
مرجعیت اور فارغ البالی
مرزاقادیانی نے اپنی زندگی عسرت وتنگی اور ایک معمولی حیثیت سے شروع کی۔ لیکن جب دعوت وتحریک نے فروغ پایا اور وہ ایک کثیر التعداد اور مرفۂ الحال، فرقے کے روحانی پیشوا اور مقتداء ہوئے تو ان کو پوری فارغ البالی حاصل ہوگئی اور وہ امیرانہ زندگی گزارنے لگے۔ ان کو خود بھی اس انقلاب اور ابتدائی اور آخری زندگی کے اس تفاوت کا احساس تھا۔ ۱۹۰۷ء میں ایک موقع پر اپنی ابتدائی حالت اور موجودہ حالت کا مقابلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا اور میں ایک گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زوایۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیش گوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے ہماری مدد کی کہ جس کا شکریہ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ مجھے اپنی حالت پر خیال کر کے اس قدر بھی امید نہیں تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے۔ مگر خدائے تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے۔ اس نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے اور شاید اس سے زیادہ ہو۔‘‘
اس کے نیچے حاشیہ پر لکھتے ہیں: ’’اگرچہ منی آرڈروں کے ذریعہ ہزارہا روپے آچکے ہیں۔ مگر اس سے زیادہ وہ ہیں جو خود مخلص لوگوں نے آکر دئیے اور جو خطوط کے اندر نوٹ آئے اور بعض مخلصوں نے نوٹ یا سونا اس طرح بھیجا جو اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیا اور مجھے اب تک معلوم نہیں کہ ان کے نام کیا کیا ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۱۱ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۲۲۱)
نکاح اور اولاد
مرزاقادیانی نے ۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ء میں پہلا نکاح اپنے خاندان میں کیا۔
(سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۵۰، روایت نمبر۴۶۷)
ان بی بی سے دوصاحبزادے مرزاسلطان احمد، مرزافضل احمد ہوئے۔ ان بی بی کو ۱۸۹۱ء میں انہوں نے طلاق دے دی تھی۔ ان کی دوسری شادی ۱۸۸۴ء میں دہلی میں نواب ناصر کی صاحبزادی سے ہوئی۔ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۱۵۱، روایت نمبر۲۶۷)