ز… اس جلد میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ (وفات: دسمبر ۱۹۹۹ئ) کے ’’ردقادیانیت‘‘ پر تین رسائل شامل اشاعت ہیں۔ مولانا ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مہتمم، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے رکن، دمشق یونیورسٹی کے مشیر، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن، عرب وعجم کے رئیس العلمائ،قافلہ حریت کے سرخیل، برصغیر پاک وہند کی موجودہ دور میں سب سے بڑی علمی اور روحانی شخصیت تھے۔ تین صدکتابوں کے آپ مصنف تھے۔ تاریخ، سیرت وسوانح آپ کے پسندیدہ مضامین تھے اور انہیں عنوانات پر آپ کی زیادہ تر تصانیف ہیں۔ قدرت نے اتنی جامعیت بخشی تھی کہ اردو کی طرح عربی زبان پر آپ کو نہ صرف عبور تھا۔ بلکہ اکثر کتابیں آپ نے اصلاً عربی میں تصنیف فرمائیں۔ بعد میں اردو کا ان کو جامہ پہنایا گیا۔ عربی ادب کے بھی آپ امام مانے جاتے تھے۔ ان کے علم وفضل کے سامنے عرب وعجم کے علماء کی گردنیں جھکتی نظر آتی تھیں۔ قدیم وجدید علم پر آپ کو دسترس تھی۔ شرق وغرب نے آپ کے علم کی گہرائی کا سکہ مانا۔ ہزاروں شاگرد، لاکھوں عقیدت مند، بیسوں مساجد ومدارس آپ کی یاد گار ہیں۔
آپ کی بیعت کا تعلق قطب الارشاد حضرت عبدالقادر رائے پوریؒ سے تھا۔ آپ حضرتؒ سے مجاز بھی تھے اور غالباً ہندوستان میں آپ حضرت رائے پوریؒ کے آخری خلیفہ تھے۔ آپ کے وصال سے مساجد ومدارس کی طرح خانقاہوں کی علمی وعملی رونق بھی متأثر ہوئی۔ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے حکم پر آپ نے لاہور میں بیٹھ کر عرب دنیا کو فتنہ قادیانیت سے آگاہ کرنے کے لئے ’’القادیانیہ‘‘ عربی زبان میں تحریر فرمائی۔ اس کے مقدمہ میں آپ نے فرمایا کہ میرے پاس دوکتب خانے جمع ہیں۔ ایک خاموش یعنی کتابیں ہیں۔ دوسرا بولنے والا کتب خانہ یعنی حضرت مولانا محمد حیاتؒ ہیں۔ شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے حکم پر تمام تر حوالہ جات فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ اور مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ نے ان کو مہیا فرمائے۔ یہاں سے مسودہ تیار کر کے لکھنؤ تشریف لے گئے اور پھر سب سے پہلے عربی ایڈیشن کی اشاعت کا دمشق