… ’’حقیقی عید ہمارے لئے ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کلام الٰہی کو پڑھا جائے۔ جو حضرت مسیح موعود پر اتر کر بہت کم لوگ ہیں جو اس کلام کو پڑھتے ہیں۔‘‘
(اخبار الفضل مورخہ ۱۳؍اپریل ۱۹۲۸ئ)
شوخ… میاں صاحب احادیث نبوی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
محمود… ’’اور کوئی حدیث نہیں سوائے اس حدیث کے جو حضرت مسیح موعود کی روشنی میں نظر آئے۔ اگر حدیثوں کو اپنے طور پر پڑھیں گے تو وہ مداری کے پٹارے سے زیادہ وقعت نہیں رکھے گی۔ حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ حدیثوں کی کتابوں کی مثال تو مداری کے پٹارے کی ہے۔ جس طرح مداری جو چاہتا ہے اس میں سے نکال لیتا ہے۔ اسی طرح ان سے جو چاہو نکال لو۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۲۰ئ)شوخ… مرزاقادیانی! آپ کے بیٹے میاں محمود نے جو ارشاد فرمایا ہے ۔ یہ کہاں تک صداقت پر مبنی ہے؟
مرزا… ’’حدیثوں کی بحث طریق تصفیہ نہیں ہے۔ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیش کرتے ہیں تحریف معنوی یا لفظی میں آلود ہیں اور یاسرے سے موضوع ہیں۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۰، خزائن ج۱۷ ص۵۱ حاشیہ)
شوخ… کیا یہ حدیثیں صحیح نہیں جو ہمارے مشاہدہ میں آرہی ہیں؟
مرزا… ’’اگر یہ احادیث صحیح ہوتیں اور مدار ان پر ہوتا تو آنحضرتﷺ فرماجاتے کہ میں نے احادیث جمع نہیں کیں۔ فلاں فلاں آوے گا تو جمع کرے گا۔ تم ان کو ماننا۔‘‘
(البدر مورخہ ۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء ص۱۸)
شوخ… اور یہ جو مولوی صاحبان فرماتے ہیں کہ فلاں حدیث قابل قبول ہے اور فلاں نہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔
مرزا… ’’یہ تمہارے بزرگوں کی اپنے منہ کی تجویزیں ہیں کہ فلاں حدیث صحیح ہے اور فلاں حسن اور فلاں مشہور اور فلاں موضوع ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۲۴، خزائن ج۱۷ ص۳۷۲)
شوخ… تو پھر ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے۔
مرزا… ’’کیا ان لوگوں کو آنحضرتﷺ کی وصیت تھی کہ میرے بعد بخاری کو ماننا بلکہ آنحضرتﷺ کی وصیت تو یہ تھی کہ کتاب اﷲ کافی ہے۔ ہم قرآن سے پوچھے جائیں گے نہ زید بکر کے جمع کردہ سرمایہ سے۔ یہ سوال ہم سے نہ ہوگا کہ تم صحاح ستہ وغیرہ پر کیوں نہ ایمان