نبوت کا اعلان کر دیا اور جب ان کے سامنے خاتم الاولاد کی تاباالفتح کو رکھ کر جواب طلب کیاگیا تو خاموشی اختیار کر لی۔اختر… مگر یہ خاموشی کسی وقت ٹوٹے گی بھی یا کہ ایسے ہی رہے گی؟
شوخ… ہاں ہاں! ٹوٹ سکتی ہے۔ یہ کون سی مشکل بات ہے۔ جو ہو نہیں سکتی۔
اختر… وہ کیسے ذرا ہمیں بھی سمجھا دیجئے۔
شوخ… دیکھو! اﷲتعالیٰ نے نیکی، بدی، موت، پیدائش، غمی، خوشی، عزت، بے عزتی، فقیری، امارت، تنگی، خوشحالی، بیماری، صحت وغیرہ کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اسی طرح ان کے اس جواب کا بھی وقت مقرر ہے۔
اختر… جی وہ کون سا وقت آئے گا کہ جب یہ لوگ اس کا صحیح جواب دے کر اپنی جان کو مصیبت سے رہا کرائیں گے؟
شوخ… اختر! جب تک وہ مرزاقادیانی کی کتابوں سے خاتم اولاد کے لفظ کو نکال کر اس کی جگہ اور لفظ نہیں لکھتے۔ اس وقت تک ہمارا اعتراض بدستور قائم رہے گا اور ان کی طرف سے خاموشی۔
اختر… شوخ صاحب! بھلا ایسا ہوسکتا ہے کہ امت مرزائیہ مرزاقادیانی کی کتاب سے یہ لفظ نکال دے یہ تو تحریف ہو جائے گی۔
شوخ… اختر میاں! ان کے لئے یہ بات کوئی مشکل نہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے قرآن مجید کی تحریف کی۔ (حقیقت الوحی ص۱۳۰، مطبوعہ ۱۹۰۷ئ)
زیر آیت: ’’الم یعلم‘‘ اور جب ہم نے اکتوبر ۱۹۳۴ء کو احرار کانفرنس قادیان میں مرزاقادیانی کی یہ تحریف دکھلا کر مرزاقادیانی کو ہزاروں آدمیوں کے سامنے بے نقاب کیا تو امت مرزا نے ہمارے اعتراض کرنے پر (حقیقت الوحی مطبوعہ ۱۹۳۵ئ،۱۹۵۰ئ) کے ایڈیشنوں میں مرزاقادیانی کی تحریف قرآن کو صحیح کر دیا۔ یہ دونوں ایڈیشن ہمارے پاس موجود ہیں۔
اختر… اس کا یہ مطلب نکلا کہ مرزاقادیانی نے تو قرآن پاک کی تحریف کی اور امت مرزا نے مرزاقادیانی کی تصنیف کی۔ ’’چہ خوب‘‘ نہلے پر دہلہ پڑا۔ مگر آپ اس کو منظر عام پر لائے ہیں یا کہ نہیں۔
شوخ… اختر میاں! ہم نے ۱۹۶۴ء میں ’’کذبات مرزا‘‘ لکھا۔ اس میں ہم نے اس کو وضاحت کے ساتھ لکھا اور عوام میں تقسیم کیا اور ہمیں جھوٹا ثابت کرنے والے کو مبلغ ایک ہزار روپیہ نقد انعام دینے کا وعدہ کیا۔ مگر یہ لوگ پڑھ کر بالکل خاموش ہوگئے۔